امام مسجد کی تنخواہ کا مسئلہ؛ ایک نقطہ نظر

امام مسجد کی تنخواہ مسلم معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ھے اور یہ مسئلہ بڑی حد تک معیشت اور روزگار سے جڑا ہوا ھے۔ ایسا اس لئے بھی کہ فی زمانہ مدارس میں پڑھنے والے اور اس کے فارغین زیادہ تر معاشی تنگی کے شکار ہوتے ہیں۔ مختلف وجوہ سے اب بڑے لوگ مدرسہ لائن سے نہیں پڑھاتے ۔ اس لئے تعلیم مکمل ہونے کے بعد تقریباً تمام فارغین مدارس کیلئے روزگار کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ھے ۔ لیکن‌ دوسرے شعبہ حیات میں انجان ہونے کی وجہ سے وہ صرف مسجدوں کے امام بن جاتے ہیں جہاں انہیں بہت قلیل تنخواہ پر نماز پڑھانے کی ذمہ داری دی جاتی ھے۔ امام مسجد کی‌اس قلیل تنخواہ کیلئے اکثر مسجد کے متولیوں اور ذمہ داروں کی مذمت کی جاتی ھے کہ وہ قلیل تنخواہ دیکر جان بوجھ کر امام مسجد کا استحصال کرتے ہیں۔ لیکن غور سےدیکھئے تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ سب کچھ ایک پروسیش کےتحت ہوتا ھے ۔‌

 Theory of Demand and Supply 

میں معاشیات کا طالب علم رہا ہوں ۔ وہاں ایک تھیوری ھے —– مانگ اور سپلائی کی تھیوری ۔ اس اصول کے مطابق بازار میں کسی چیز کی قیمت/اجر/تنخواہ /ویلیو اس کی مانگ اور سپلائی کے ذریعے طے ہوتی ھے نہ کہ لوگوں کی مرضی اور منمانی سے ۔ بازار یا کسی علاقے میں اگر کسی چیز کی سپلائی اس کی مانگ سے زیادہ ہوگی تو اس چیز کی قیمت گھٹ جائے گی۔ لیکن اگر سپلائی کم ھے تو اس چیز کی قیمت بڑھ جائےگی۔ ٹھیک یہی معاملہ امام مسجد کے ساتھ ہوا ھے۔ ہمارے معاشرے میں امام مسجد کی سپلائی زیادہ ھے ، ایک کو چھوڑئے تو فوراً دوسرے دستیاب ہیں۔ یعنی اماموں کی سپلائی ان کی مانگ سے بہت زیادہ رہتی ھے ۔ اسی over supply کی وجہ سے اماموں کی قیمت ( تنخواہ) کم رہتی ھے ۔

میرے خیال میں اس کا حل یہ نہیں ھے کہ متولیان مساجد کی مذمت کی جائے اور ان کو بار بار تنخواہ بڑھانے کی نصیحت کی جائے۔ ایسا ہر جگہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ کا مستقل حل یہ ھے کہ ہم ائمہ مساجد کی سپلائی کو کم کردیں یا کم از کم توازن پر رکھیں تاکہ over supply کی صورت پیدا نہ ہو ۔ یہ کام مدارس کے موجودہ نظام کے تحت ممکن نہیں ھے۔ اس لئے کہ ادھر سے تو سیل رواں کی مانند over supply کا عمل جاری ھے ۔ اس کیلئے ضروری ھے کہ جو لوگ مدرسوں سے فارغ ہوتے ہیں انہیں فارغ ہونے سے پہلے دوسرے روزگار کیلئے تیار کیا جائے ۔ ایک ممکنہ راستہ یہ ھے کہ فارغین کیلئے مدارس میں ہی پیشہ ورانہ تربیت (vocational training) یا skill development کا کام شروع کیا جائے تاکہ فارغ ہونے کے بعد وہ امام مسجد کے علاوہ کسی دوسرے روزگار کو select کرسکیں ۔ اس وقت ہندوستان میں بڑے بڑے مدارس چل رھے ہیں۔ ان مدارس کے پاس بڑی بڑی عمارتیں ہیں، ہر قسم کے وسائل اور ساری سہولیات موجود ہیں۔ وہاں آخری سال میں فارغین کیلئے متعدد قسم کی روزگار ٹریننگ کا انتظام ہوسکتا ھے۔ عصر جدید کے تمام یونیورسیٹوں میں پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم کا نظم کیا گیا ھے تاکہ طالب علم کورس پورا ہونے کےبعد روزگار حاصل کرسکیں اور معاشرے کو اپنی خدمات دے سکیں۔ ۔ لیکن ہم آس پاس کے ماحول کو کافرانہ سمجھتے ہیں ۔ باہر کی دنیا سے سبق لینا نہیں چاہتے۔ اس وقت پوزیشن یہ ھے کہ فارغین مدارس امام مسجد کو چھوڑ کر کوئی دوسرے کام کے لائق نہیں ہوتے، جبکہ امام مسجد کا فریضہ کم پڑھے لکھے لوگ بھی انجام دے سکتے ہیں۔

مدارس کے طرز تعلیم کے نتیجے میں اگر محتاج علماء پیدا ہوتے ہوں تو اس کی ضرور اصلاح ہونی چاہئے تاکہ خود کفیل علماء پیدا ہونے لگیں۔ ایک شخص اگر دن رات معاش کی فکر میں رہتا ہو تو ایسی حالت میں وہ دین کی خدمت کیسے انجام دے گا۔ اس سوال کا جواب ذمہ داران مدارس کو دینا چاہیے. بیچارے امام کرے تو کیا کرے۔ ان کےپاس امامت کے سوا کوئی اوپشن نہیں ہوتا ۔اہل مدارس متولیوں کی اصلاح کرکے ائمہ مساجد کی تنخواہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ یہ کام ہر جگہ نہیں ہوسکتا۔
سڑک پر اگر زیادہ بھیڑ ھے تو پولس عارضی طور پر وہاں barrier لگا دیتی ھے۔ لیکن وہ بھیڑ کا مستقل حل نہیں۔ مستقل حل یہ کہ سڑک کو کشادہ کیا جائے۔ یہی فارمولہ ہر جگہ اختیار کیا جائےگا۔ لیکن ہمارا دھیان مستقل حل پر نہیں جاتا۔

ائمہ مساجد کی قلیل تنخواہ پر شکایت کرنے کے بجائے‌ اگر انہیں پہلے ہی پیشہ ورانہ تربیت دےدی جائے تو اس مسئلہ کا مستقل حل نکل سکتا ھے۔ فارغین کو کم‌از کم ایک سال مزید مدرسے میں ٹھہرایا جائے اور لازمی پیشہ ورانہ تعلیم کے بعد ہی ان کی دستاربندی کی جائے تاکہ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ مسجدوں کے امامت کے علاوہ دوسرے کام کے لئے بھی eligible ہوجائیں۔ بڑے بڑے مدرسوں میں فارغین کیلئے کم از کم ایک سالہ کورس کسی trade پر ہونا چاہئے۔ کچھ ممکنہ ٹریڈ اس طرح کے ہوسکتے ہیں۔

Computer software/ typing.
Garment
manufacturing and tailoring
Electric and electronic works
Bakery, confectionery
gate grill mfg.
wooden and steel furniture mfg
Amin (land measuring.
Plumbing.
English speaking course .
Rural Medical Practitioner (RMP)

جو لوگ مدارس کی موجودہ حالت یا اس کے نظام تعلیم میں کسی تبدیلی یا ترمیم کے خلاف ہیں ، ان کی طرف سےایسی دلیلیں بار بار آتی ہیں کہ جب میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلباء سے کسی مزید تکنیکی تعلیم کی توقع نہیں کی جاتی ھے تو فارغین مدراس کے تعلق سے ایسی تجویزیں کیوں رکھی جاتی ہیں ۔ اس سلسلے میں عرض ھے کہ ڈاکٹر، انجینیر، جج اور وکیل تو پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرکے ہی میدان عمل میں آتے ہیں ، ان سے کیوں کہا جائے گا کہ وہ مزید تکنیکی تعلیم حاصل کریں۔ انہیں مزید تکنیکی تعلیم کی کیا ضرورت ھے ۔ فارغین مدارس کیلئے تکنیکی یا پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کی تجویز اس لئے رکھی جاتی ھے تاکہ وہ فارغ ہونے کے بعد روزگار کیلئے صرف مسجدوں کے امام بننے پر انحصار نہ کریں بلکہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کام کے لائق بھی بنالیں۔ اس طرح وہ دوسرے میدان میں بھی دین کی نمائندگی کرسکیں گے اور مسجدوں میں اماموں کی supply بھی کم ہوجائے گی۔ اس طریقےسے ان کی قدر و منزلت بھی بڑھےگی۔ تعلیم خواہ کوئی بھی ہو، دینی یا دنیوی، اسکا تعلق اگر روزگار سے نہیں ھے تو وہ رسوائی کا سبب بنے گا۔ اس لئے کہ انسان کے ساتھ اس کا پیٹ بھی ھے ‘اس کے اہل و عیال بھی ہیں اور ضروریات زندگی بھی ہیں ۔

تحریر: انیس ۔ 8227076099

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے