دہلی انتظامیہ بل

بھاجپا ایک زمانہ میں دہلی کو مستقل ریاست کا درجہ دلوانا چاہتی تھی، لال کرشن اڈوانی، مدن لال کھورانہ اور خود اٹل بہاری باجپئی1999ء میں اس کے حق میں تھے۔لیکن سیاسی داؤ پیچ میں ایسا نہیں ہو سکا، البتہ اسمبلی بن گئی، اور لفٹننٹ گورنر کو زیادہ اختیار دے دے دیا گیا جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بے دست وپا انداز میں کام کرنے لگے، جب کوئی بات مرکزی حکومت کو بری لگتی تو لیفٹنٹ گورنر کے سہارے وہ اس کو روک دیتی، لیکن عاپ کی حکومت آئی، اروند کیجریوال نے بھاجپا کو دھول چٹا دیا اورکہنا چاہیے کہ عاب نے بھاجپا پر جھاڑو پھیر دیا، یاد رکھیے کہ عاپ کا انتخابی نشان جھاڑو ہی ہے۔
مرکزی حکومت نے اروند کیجریوال کو پریشان کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، دہلی کے سرکاری اسکولوں کو تعلیمی پہچان دینے والے منیش سسودیا پر بدعنوانی کا الزام لگا کر آئی بی کے ذریعہ اسے جیل رسید کر دیاگیا، اور مہینوں گذرنے کے بعد اب تک ان کی ضمانت نہیں ہوسکی ہے۔
مرکزی حکومت کے اس رویہ کے خلاف دہلی حکومت سپریم کورٹ گئی، وہاں سے اسے راحت ملی اور عدالت نے وزیر اعلیٰ کے اختیار کی وسعت کو تسلیم کیا اور لیفٹننٹ گورنر کی بے جا دخل اندازی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا، لیکن مرکزی حکومت کو یہ گوارہ نہیں تھا، پارلیامنٹ چل نہیں رہی تھی، اس لیے صدر جمہوریہ سے ایک آرڈی نیشن پر دستخط کراکر پھر سے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو بے دست وپا کر دیا گیا اور دہلی نیشنل کیپٹل ٹیرٹری ایڈمنسٹریشن ترمیمی بل 2023پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا۔
پارلیامنٹ میں یہ بل اکثریت کے بل پر پاس ہو گیا، راجیہ سبھا میں بھاجپا کو اکثریت حاصل نہیں ہے، اس لیے یہاں گنجائش تھی کہ دہلی انتظامیہ بل پاس نہ ہو سکے، لیکن بھاجپا نے سیاسی دور اندیشی کے ساتھ چندر شیکھر کی راشٹریہ سمیتی، آندھرا کی ٹی آر ایس اس کانگریس اور اڈیشہ کے بیجو جنتا دل کو اپنے ساتھ کر لیا، اس طرح اس بل کے پاس ہونے میں رکاوٹ یہاں بھی باقی نہیں رہی، البتہ این ڈی اے کے ایک سو اکیس (121)اور انڈیا اتحاد کے ایک سو انیس(119) ارکان تھے، راجیہ سبھا میں بحث ہوئی پھرووٹنگ ہوئی تو یہ بل 102کے مقابلہ ایک سو اکتیس (131)سے پاس ہو گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا اتحاد میں بھی بھاجپا سیندھ مارنے میں کامیاب ہو گئی اور کم از کم دوسری پارٹی کے بارہ ممبران نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا، اب یہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون بن گیا، لیکن تاریخ میں یہ بات درج ہوگئی کہ بھاجپا وفاقی ڈھانچے اور ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے کسی حدتک جاسکتی ہے، اس کا نقصان ہندوستان کی سالمیت کو پہونچے گا۔
عین ممکن ہے کہ جب بھی دہلی اسمبلی میں بھاجپا کی اکثریت ہوگی اور اس کی حکومت تشکیل پائے گی تو یہ راگ پھر الاپاجائے گا کہ دہلی کو خود مختار اور مکمل ریاست کا درجہ ملنا چاہیے۔کیوں کہ اس کے بغیر دہلی کی ترقی ممکن نہیں ہے۔

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے