مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عصمت دری کے ذریعہ حاملہ ایک عورت کو سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کی اجازت دیدی ہے، عورت ستائیس ہفتہ کی حاملہ ہے، یہ وہ مدت ہے جو وضع حمل کی کم سے کم مدت ہوا کرتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود اس کا اسقاط عدالت کے فیصلوں کے احترام کے باوجود سمجھ سے باہر ہے، یہ اب تک کی سب سے زیادہ مدت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی گئی ہے۔ دراصل یہ مقدمہ گجرات سے سپریم کورٹ پہونچا تھا، گجرات ہائی کورٹ نے اس عورت کی اسقاط حمل کی اجازت دینے والی عرضی خارج کردی تھی جس پر سپریم کورٹ کے بی وی ناگ رتنا اور اجول بھوین کی دو رکنی بنچ نے سماعت کرکے یہ فیصلہ سنایا اور کہاکہ اب مزید اس کام میں تاخیر نہ کی جائے۔
عدالت نے یہ واضح کیاکہ چوں کہ مدعیہ آبروریزی کی شکار ہوئی ہے اور اس بچے کی وجہ سے اس کی سماجی زندگی متاثر ہوگی، اس لئے یہ اجازت دی جاتی ہے۔ البتہ اگر بچہ زندہ ہو تو اس کی پرورش کا انتظام لازمی طور پر کرنا ہوگا ، بعد میں اسے کسی گود لینے والے کے سپرد قانونی کاروائی کے بعد کیا جاسکتاہے۔ عدالت نے اپنے اس فیصلہ میں گرچہ زچہ، بچہ دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے، لیکن اتنی مدت کے بعد اسقاط سے ایک بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے، حالاں کہ حمل میں وہ مدت پوری کرچکا ہے جو اس کے دنیا میں آنے کی کم سے کم مدت ہے۔
اس فیصلہ کا بڑا اثر سماجی زندگی پر پڑے گا اور جن فیصلوں میں بیوی کی رضامندی کے بغیر جماع کو ریپ یعنی آبروریزی سے تعبیر کیا گیاہے، اس کا فائدہ اٹھاکر ان چاہے حمل کو ضائع کرنے کا ایک بڑا دروازہ کھل جائے گا، جو سماج کے لئے انتہائی نقصاندہ ہوگا اور میاں بیوی کے درمیان تنازعات اور خانگی جھگڑوں کا سبب بنے گا۔