تحریر:انوارالحق قاسمی، نیپالی
بلا تفریق ہر مسلمان، جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت اور بے پناہ عقیدت ہو ،قطع نظر اس کے، کہ وہ بادشاہ فقیر ہو یا وزیروامیر، دولتمند و حاجتمند،غنی وگدا ،شہریاروشہسوار، تاجدارو چوبدار ،فرمارواو بے نوا، نیازمندودرد مند تاجر وآجر ،زاہد ورندعالم وعامی ، ہندوستانی ونیپالی ، الغرض اس کرہ ارضی کے ہرفرد مومن و مسلم کو اپنے آقا و مولیٰ رب العالمین کے ہر حکم و اشارہ کو بروئے کار لانے کی طبعی اور فطری خواہش ہوتی ہے ،من جملہ ان احکامات خداوندی کے جو ایمان والوں کی طرف متوجہ ہوئی ہیں ،ایک "صیام ماہ رمضان” کا حکم ہے ،ہر مسلمان اس حکم کی اطاعت و بجاآوری کے لئے، بصد شوق گیارہ مہینے، رمضان المبارک کی آمد کے انتظار میں رہتے ہیں ،اور جب گیارہ مہینوں کے بعد بارہواں مہینہ :یعنی رمضان المبارک آجاتا ہے، تو پھرہر مرد مومن اس مہینے کے ہر روز ،صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ کے منافی افعال وحرکات کے ارتکاب سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، اور اوقات محدودہ میں تمام تر نفیس غذاؤں کی موجودگی میں، ان سے دست کش ہونے کو اپنے لیے قابل فخر کارنامہ سمجھتے ہیں، غروب آفتاب سے قبل والا منظر تو کچھ زیادہ ہی قابل دیدنی ہوتا ہے ،کہ ہرصائم وروزہ دار کے حضور اور روبرو ہر طرح کی اشیاء خوردنی موجود ہوتی ہیں، نیز یہ کہ صائمین بھوک و پیاس کی شدت بھی محسوس کرتے ہیں؛ مگر صرف حکم ربانی نہ ہونے کی بنا پر روزہ دار حضرات، شکم سیری کے لیے، ان کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے ہیں، اور غروب آفتاب کے بعد جب حکم خداوندی ہوتا ہے،تو پھر تمام صائمین اس دعا :اللهم لك صمت و بك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك افطرت. پڑھنے کے بعد روزہ توڑتے ہیں، یہ منظر کوئی ایک دن نہیں ہوتا ؛بلکہ رمضان المبارک کے تیسوں ایام میں سے ،ہر ایک دن ہوتا ہے، کافروں اور اسلام دشمنوں کو تو بے حد حیرت ہوتی ہے ،کہ تمام مسلمان پورے رمضان المبارک کے مہینے میں ،صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بغیر اکل وشرب کے کیسے رہ جاتے ہیں؟واقعی پورے دن بھوکے ،پیاسے رہنا ،حیرت انگیز امر ہے؛ مگر فقط حکم خالق کائنات ہونے کی بنا پر پورےدن بھوکے پیاسے رہنے میں بھی، ہر فرد مسلم کو ایک عجیب طرح کی لذت اور فرحت محسوس ہوتی ہے، اور نسیم صبح شام شام سے ان کےمشام جاں بھی معطر ہوتے رہتے ہیں۔
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہر صائم کی یہی سعی اور کوشش رہتی ہے ،کہ اس سے اس مہینے میں کوئی کوتاہی سرزد نہ ہو، مگر ہزار جتن کے بعد بھی تیس ایام کے کسی ایک روز کے کسی ایک لمحہ، ثانیہ اور ساعت میں کچھ نہ کچھ کوتا ہی ہونے کا امکان ہے؛ بلکہ گمان غالب بھی یہی ہے، کہ ایک نہ ایک خطا سرزد ضرور ہو جاتی ہے، اس لیے شریعت مطہرہ میں ہر طرح کی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے، رمضان المبارک کے اختتام پر صدقۃ الفطر کے نام سے گویا کہ روزہ کی زکوٰۃالگ سے واجب قرار دی گئی ہے،حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرةللصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات. (ابوداؤد شریف، ۱۶۰۹)ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو ضروری قرار دیا ،جو روزہ دار کے لئے لغو اور بےحیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اور مسکینوں کے لئے کھانے کا انتظام ہے، جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کردے ،تو یہ مقبول زکوۃ ہوگی، اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔
اس روایت سے یہ بات منقح اور واشگاف ہوتی ہے، کہ "ماہ رمضان المبارک” کے اختتام پر صائمین پر صدقۃ الفطرکےوجوب میں، دو عظیم مقاصد ہیں، جنہیں بالترتیب ذکر کیے دیتا ہوں، نمبر ایک یہ کہ اس کے ذریعے روزہ داروں سے روزہ کی کوتاہیوں کی تلافی مقصود ہے، نمبردوم یہ کہ ہم مسلمانوں ہی میں، جو مسکین، فقیر اور محتاج ہیں، ان کے لئے کھانے، پینے کا معقول انتظام و انصرام اور بندوبست کرنابھی ہے؛ تاکہ فقراحضرات بھی ،عید کی خوشیوں میں مرفہ الحال لوگوں کے ساتھ برابر کے شریک ہوجائیں، اور عید کے اس خوشی کے دن میں، انہیں اپنے فقر واحتیاج کا احساس بھی نہ ہو ؛مگر ایک بڑا المیہ یہ ہے ،کہ آج ہمارے معاشرے کا ماحول صدقۃ الفطر کے حوالے سے بالکل ہی الٹا نظر آرہا ہے، احقر ہر جگہ کی بات نہیں کرتا؛ بلکہ صرف ملک نیپال کی، اس میں بھی خاص طور سے ضلع "رو تہٹ "کی بات کرتا ہے، کہ ضلع "روتہٹ”میں تقریباً جتنی بستیاں ہیں، ان سے زائد کہیں دینی ادارےہیں، یہ بات بھی ذہن نشیں ہو کہ دینی مدارس کا ہونا یہ بہت ہی اچھی چیزیں ہیں، کیوں کہ حقیقتا یہ دین کے قلعے ہیں ،انہیں کے ذریعے آج مسلمانوں میں دین بھی موجود ہے ؛مگر افسوس کی بات یہ ہے ،کہ ان مدارس کے ارباب اختیار، ہر بستی اور ہر محلہ میں ایسا ماحول اور ف
ضا بنا چکے ہیں، کہ ہر شخص اپنے صدقۃ الفطر کی رقم یاغلہ کو صرف مدارس اسلامیہ ہی میں دینے کو باعث سعادت اورمدار مقبولیت تصور کرتے ہیں، اور فقراء و مساکین اور ضرورت مندوں کی طرف ان کے اذہان وقلوب بھی منتقل نہیں ہو تے ہیں؛ چہ جائے کہ انہیں ” صدقۃ فطر” کی رقم عطا کرے ۔
جو شخص ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کے بقدر روپے کا مالک ہو، تو اس پر صدقہ فطرادا کرنا واجب ہو جاتا ہے ،صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع گندم ،یاایک صاع تمر اور زبیب ہے، موجودہ اوزان کے اعتبار سے نصف صاع کی مقدار ایک کلو ۵۷۴/گرام ۶۴۰/ملی گرام ہوتی ہے، نیز اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے ؛ اس لیے مالک نصاب حضرات کو چاہئے ،کہ اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولادوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کریں، مگر اولی یہ ہے ، کہ جو شخص مرفہ الحال ہو ؛گرچہ مذکورہ نصاب کا مالک نہ ہو ،وہ بھی اگر صدقۃ الفطر ادا کردے ،تو یہ ان کے لیے بہتر ہے، یہ بات بھی یاد رہے کہ صدقہ فطر اور زکوۃ کے وجوب میں قدرےفرق ہے، اور وہ یہ ہے،کہ زکوۃ میں مال نامی ہونا لازمی ہے،صدقہ فطر میں یہ ضروری نہیں ہے، اسی طرح زکوۃ کی ادائیگی کا وجوب ،سال گزرنے کے بعد ہوتا ہے، صدقہ فطر فی الفور واجب ہو جاتا ہے، البتہ اس معاملے میں زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر متحد ہیں ،کہ یہ مال قرض اور ضرورت اصلی سے زائد ہونا چاہیے، ورنہ زکوۃ اور صدقہ فطر واجب نہ ہو گا،کتاب المسائل ،جلد دوم، صفحہ نمبر :۱۳۵۔
جو شخص عید الفطر کی صبح صادق مالک نصاب ہونے کی حالت میں پائے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے ، ووقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثانی من یوم الفطر.اور مستحب یہ ہے کہ عید الفطر کے روز عیدگاہ جانے سے قبل صدقۃ الفطر ادا کردے ،تاکہ غرباء حضرات بھی عید کے پرمسرت دن میں خوب خوشیاں منا لیں، اور اس روز انھیں کسی طرح کا کوئی صدمہ اور رنج و الم نہ ہو ۔
رمضان المبارک، مسلمانوں کے لیے نیکیاں اور ثوابیں بٹورنےکا بابرکت مہینہ ہے ،اس لیے جن حضرات کو اللہ تبارک و تعالی نے مال و زر سے نوازا ہے، انہیں چاہیے کہ نیکیوں کے اس موسم بہار میں صدقۃ الفطر کی ادائیگی، نصف صاع گیہوں کے بجائے ایک صاع کھجور یا کشمش کے ذریعے کرے ،کیوں کہ نصف صاع گیہوں کی مقدار بہت ہی کم بیٹھتی ہے، جس کارئیسوں اورمالداروں کے یہاں کوئی اعتبار ہی نہیں ہے، اور کھجورو کشمش کی مقدار ایک خطیر رقم کو پہنچ جاتی ہے؛ اس لیے اس صورت میں مالداروں کو ثواب اور نیکیاں بھی زیادہ مل جائیں گے، اور فقراء و مساکین اور ضرورت مندوں کا فائدہ بھی ہو جائے گا ۔
اللہ تبارک وتعالی ان حضرات کو ،جن پر صدقۃ الفطر واجب ہے، بروقت: یعنی عید الفطر کے روز ،عیدگاہ کا رخ کرنے سے قبل قبل تک ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے،تاکہ ضرورت مند حضرات اپنی تقدیر کا شکوہ نہ کرسکے۔