اب تجھے یاد دلانے کے لئے کچھ بھی نہیں

نصیحت حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی
بہ موقع تکمیل نصاب مسلم شریف

ترتیب و تلخیص: محمد ریحان ورنگلی

مزاج شناس، مزاج شناور، علم کا پہاڑ، عمل میں بے مثال، عندلیبِ زماں، معقولات و منقولات کا شہ سوار، ادیبِ زماں، عام فہم و عام زباں، انوکھا اور نرالہ انداز، مشکل درس کو آسان بنانے کا ملکہ، طلبہ کی رعایت، ابتدا سے انتہا تک اندازبیاں ایک جیسا، ان سب صفات کی جامع شخصیت حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی دامت برکاتہم العالیہ ہیں ۔
چنانچہ آج ١٣ ربیع الاول بروز منگل بعد نماز مغرب والا وقت ایک طرف خوشی کی بہاریں لارہا تھا، تو وہی دوسری طرف غم کی فضاؤوں کو بھی جگا رہا تھا کیونکہ امسال کا یہ دن اور یہ وقت حضرت والا کے آخری درس کا تھا حضرت کی آمد پر حضرت کو دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی، حضرت والا کے مسند پر جلوہ افروز ہوتے ہی سلمان بہرائچ نے بہت ہی پیارے انداز میں عبارت خوانی کی، پہر حضرت نے اختتامی درس دیا، پہر ہمیں یہ بتایا کہ ترجمان نے مجھے کچھ دیر نصیحت کرنے کی نصیحت کی ہے پہر حضرت نے نصیحت شروع کی
"مدارس کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ پڑھایا جائے ؛بل کہ مدارس power house ہے جہاں سے پوری دنیا کو روشنی پہنچتی ہے، خالق کا حق کیسے ادا کریں؟ مخلوق کا حق کیسے ادا کریں، حق و باطل کی تمیز کیسے کریں، لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں، یہ ساری رہنمائی مدارس کے طلبہ کرتے ہیں اور آپ کا ہی یہ کام ہے۔
آپ کا ایک سرا علمِ نبوت کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے نبوتِ محمدی سے جڑا ہوا ہے اور دوسرا سرا انسانی زندگی کی رہنمائی سے جڑا ہوا ہے، علمِ نبوت کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے، علمِ نبوت کی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے اب کوئی آنے والا نہیں ہے وہ آپ ہی کی ذمہ داری ہیں، انبیاء امتی کانبیاء بنی اسرائیل یہ حدیث موضوع ہے؛ لیکن اس کا مضمون صحیح ہے کہ پہلے جب ایک نبی چلا جاتا تھا تو کارِنبوت کا سنبھالنے کے واسطے اللہ دوسرے نبی کو بھیجتا تھا؛ لیکن اب سلسلۀ نبوت جناب محمد الرسولﷺ پر ختم ہوچکا ہے، اب کوئی ظلی، برازی نبی نہیں آئے گا؛ لیکن دینِ اسلام کو اللہ قیامت تک باقی رکھے گا تو اب امت کی رہنمائی کون کرے گا؟ کار نبوت کو کون انجام دے گا؟ یہ ہماری ذمہ داری ہیں۔
بہر حال! آج ہمارے طلبہ و علما کے درمیان سب سے بڑا فتنہ احساسِ کمتری ہیں احساس کمتری میں کیا کرسکتا ہوں؟ ارے! آپ ہی سب کچھ کریں گے آپ ہی کو سب کچھ کرنا ہے، دوسروں کے لئے احساسِ کمتری ایک نفسیاتی مرض ہیں اور ہم وارث انبیاء ہیں ہمارے لئے احساس کمتری ایک مرض نہیں؛ بل کہ ایک ضعفِ عقیدہ ضعفِ ایمان اور دینی کمزوری کی دلیل ہیں اس لئے میرے عزیزوں! اپنے کو نہ کمترسمجھو اور نہ حقیر سمجھو ہم حقیر نہیں ہے؛ بل کہ احساسِ حقارت میں مبتلا ہیں جب ہم اپنی ہی نظروں میں حقیر ہوں گے تو پہر کیسے دنیا کی نگاہوں میں معزز اور برتر ہوں گے اس لئے احساسِ حقارت کو ختم کرو احساس کمتری کو دور کرو اپنے اندر احساس برتری پیدا کرو اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالی نے ہمارے اندر صلاحیت رکھی ہیں ہم جس سطح پر بھی ہوسکے ہم دین کی خدمت کریں گے جب عزم کرو گے تو اللہ تعالی آپ سے کام لے گا اور مطلق علم مطلوب نہیں ہے؛ بل کہ علمِ مقبول مطلوب ہیں اس لئے اللہ سے ہمیشہ اہنے علم کے مقبول ہونے کی دعا کریں جب علم مقبول ہوگا تو اللہ تعالی عمل کی بھی توفیق دے گا۔
نیز مدرسہ صرف ایک تعلیم گاہ نہیں؛ بلکہ تربیت گاہ بھی ہیں ہمارے اکابر نے اس کو صرف تعلیم گاہ ہی نہیں بنایا ہیں؛ بل کہ تربیت گاہ بھی بنایا ہیں یہاں صرف سکھایا نہیں جاتا؛ بل کہ جو سکھایا جاتا ہے اس کو زندگی میں اتارا بھی جاتا ہیں تربیت کے بغیر تعلیم اور تعلیم کے بغیر تربیت بیکار ہیں
تربیت کیا ہیں ادب ہیں کھانے پینے میں اٹھنے بیٹھنے میں سونے جاگنے میں کسی سے ملنے جھلنے میں ادب کو ملحوظ رکھا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے