آہ! سنجیدہ صحافی ڈاکٹر مسرور فیضی ندوی، یادیں اور باتیں

ازقلم: محمد بدرالاسلام ندوی
استاذ سینئر سکنڈری اسکول جعفرپور، مظفرپور

غالباً 1995 کا زمانہ تھا، اور میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے صوبہ بہار، ضلع سیتامڑھی کے مشہور و معروف ادارہ،یعنی جامعہ قاسمیہ بالاساتھ میں جب میرا داخلہ مکتب سوم میں ہوا تھا،تو اس وقت میرے کے کلاس ٹیچر استاد محترم مولانا مناظرالاسلام صاحب امینی بالاساتھوی مرحوم تھے،اس کے بعد رفتہ رفتہ1997 میں درس نظامی کے، نصاب کے مطابق مدرسہ ہذا میں درجہ عربی اول میں جب داخل ہوا تھا تو اسی زمانے میں بھائی مسرور فیضی،سمستی پور، سرسیا نامی گاؤں سے مدرسہ ہذا کی شہرت سن کر آئے تھے، چہ جائیکہ ہم دونوں کی ابتدائی عربی کی تعلیم ایک ساتھ مدرسہ ہذا سے ہوئی تھی،لیکن مجھ کو یہاں کا تعلیمی نصاب کو راس نہ آیا، جس کی بنیاد پر میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے ملحق،مدرسہ اصلاح المسلمین کریم گنج جھٹکی ضلع سیتامڑھی،جو اس زمانے میں اپنے نظم ونسق اور تعلیم کے میدان میں علاقے کا بہترین ادارہ گردانا جاتا تھا،بہرحال تو اسی ادھیر بن میں،میں نے پھر ندوے کے نصاب کو اپنایا اور پڑھنے کے شوق میں،اور اسی نصاب کی خواہش اور تکمیل میں، پھر میں گوپال گنج کا مشہور و معروف، دینی و اقامتی ادارہ،اور علوم عرفان کا سرچشمہ اور علم کا نیر تاباں، مدرسہ اسلامیہ احسانیہ سمرا کے سفر پر روانہ ہوا،البتہ جب یہاں پہنچا،تو میں کیا کہوں یہاں کے تعلیمی ماحول اور اس مدرسہ کی آب وہوا،اور انتظامی امور اور تعلیمی فضا کے بارے میں، چند دنوں ہی میں راقم الحروف کو اس ادارے کا ہر ہر عمل بہت پسند آیا بھایا،اور راس آیا،اور جتنا میں اس ادارے کا اپنے اوپر احسان سمجھوں وہ میرے لئے بہت کم ہے، رب کریم اس ادارے کو ترقیاتی منصوبوں سے کامیاب کرے آمین،خیر اسی الٹ پھیر کے سفر میں کبھی میرے خیر خواہ،تو کبھی مسرور فیضی کے چاہنے والے برابر ملتے رہے،اور اس طرح سے دونوں بھائیوں کا برابر کا رابطہ رہا،حالانکہ وہ بالاساتھ کے بعد مدرسہ عالیہ عرفانیہ چوک لکھنو پہنچے، لیکن اسی درمیان بھائی مسرور وہ مجھ سے ایک سال سینئر ہوگئے،اور جس سال میں یعنی 2003 میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخلہ امتحان برائے عالیہ ثانیہ شریعہ مطلوب دینے کے لئے پہنچا تو وہ بھی مدرسہ عالیہ عرفانیہ چوک لکھنو سے درجہ عالیہ ثالثہ شریعہ مطلوب کے لئے آئے ہوئے تھے،کہ یکایک امتحان ہال سے نکلتے ہی دونوں آدمی کی ملاقات درسگاہی عمارت دارالعلوم اور ندوی بک ڈپو کے بیچ سے جو شاہراہ معہدالقرآن ہاسٹل کو جوڑتی ہے اسی تیراہے پر ہماری ان سے ملاقات ہوئی، ان کے سرپہ ایک خاص قسم کی کلردار ٹوپی اور چہرے پر ہلکی، ہلکی اور خوبصورت شکل وشبیہ کے ساتھ پتلی پائپ کی رینجر سائیکل پر سوار تھے،اور وہ مجھے دیکھتے ہی سائیکل کو بریک لگاکر روک دیا علیک، سلیک کے بعد خبر خیریت دریافت کی اور کافی دیر تک ہم اور وہ اشوک کے پیڑ کے سایہ میں کھڑے ہو کر اور پارک کی حفاظت میں لگے جالی دار گریل سے لگ کر محبت بھرے انداز میں ہم دونوں نے ماضی کی باتیں بھی کی،اور وہ مزہ لے لے کر سنتے رہے،اور سناتے رہے، اور اسی اثنا میں، انہوں نے مجھ سے مولانا سہیل اختر مظاہری ،جوکہ اب یہ بھی سال بھر پہلے مرحوم ہوچکے ہیں،اور اسی طرح سے انہوں نے مولانا ولی اللہ مظاہری،ندوی اور دیگر رفیقان جامعہ قاسمیہ بالاساتھ کے بارے میں انہوں نے مجھ سے دریافت کیا، جو بروقت یاد رہا اس کا اظہار کر دیا، اور جو ذہن میں نہیں آرہا تھا معذرت کردیا،حالانکہ ڈاکٹر مسرور فیضی ندوی دینی تعلیم کی طلب میں وہ مجھ سے پہلے لکھنؤ پہنچ چکے تھے، اور وہ وہاں کی ادبی ثقافتی سرگرمیوں سے خوب خوب واقف تھے، بہرحال اللہ اللہ کرکے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا مجموعی امتحانی نتیجہ عیدالاضحی سے چند دن قبل درمیان رمضان المبارک میں ’’تعمیر حیات‘‘ نامی رسالہ میں برخیز ہوا تو راقم الحروف کا داخلہ عالیہ ثانیہ شریعہ کے لئے ہوا،اور بھائی مسرور کا داخلہ عالیہ ثالثہ شریعہ کے لئے ہوا،اور اسی طرح دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے قیام کے دوران مرحوم سے برابر ملاقات ہوتی رہتی تھی، وہ قیام شہر رہا کرتے تھے اور میں ندوہ کے ہاسٹل میں رہا کرتا تھا،وہ اکثر کلاس کرنے کے لئے پتلے پائپ سے بنی سائیکل سے آیا کرتے تھے، اور پابندی سے کلاس کرکے وہ رخصت ہوجایا کرتے تھے،اور اسی دوران اچھی اور بھلی باتیں بھی ہوا کرتی تھیں،اور ہم لوگ ایک دوسرے سے مل کر برملا اپنی محبت اور خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے،اور یونہی وقت گزرتا گیا اور وہ 2005 میں عالمیت سے فراغت حاصل کرکے، فضلیت حدیث میں انہوں نے داخلہ لے لیا اور راقم الحروف 2006 میں عالمیت سے فراغت کے بعد فضلیت کا داخلہ فارم لے کر میں اپنے داخلے کی کارروائی مکمل نہ کراسکا،اور اس کے بعد میں نے لکھنؤ یونیورسٹی کے ممتاز پی جی کالج ڈالی گنج لکھنؤ کے BA پروگرام میں داخلہ لے لیا،اور وہ دہلی چلے گئے لیکن رابطہ برابر رہا، کبھی وہ مجھ سے رابطہ کیا کرتے تھے، تو کبھی میں ان سے رابطہ کیا کرتا تھا،ان سب کے باوجود 2013 میں بی ایڈ کی تعلیم کے بعد جب میں دہلی پہنچا تو وہ DD نیشنل چینل میں بطور اینکر کام کیا کرتے تھے،وہ نوجوان ادیبوں کی فہرست میں تھے،اور وہ ایک اچھے افسانہ نگار ہونے کے ساتھ اچھے صحافی بھی تھے، انہوں نے مختار عباس نقوی،اور شری راجناتھ سنگھ کے علاوہ اور بھی لوگوں کا انٹرویو لے رکھا ہے،اسی زمانے میں ان کا فریج نامی ایک افسانہ کافی مقبول ہوا تھا،اور اسی طرح سے جب FM ریڈیو کی ویکنسی آئی تھی تو انہوں نے باضابطہ طور پر مجھ سے فون کرکے کہا کہ بھائی ریڈیو پر اگر کام کرنا ہوتو آپ مجھے اپنا بایو ڈاٹا بھیج دیں، لیکن زہے قسمت اسی دوران میری ملازمت دھلی کے گورنمنٹ اسکول میں بطور گیسٹ اردو لکچرر انتخاب ہوگیا تھا،جس کی وجہ سے میں نے ان سے معذرت کردیا، اور میں نے پڑھنے پڑھانے کو ترجیح دیا،اور اسی طرح سے جب میری مستقل ملازمت صوبہ بہار میں لگی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی بذریعہ سوشل میڈیا مبارک باد پیش کرنے کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار بھی کیا اور حوصلہ افزائی سے بھی نوازا،اور جب 2016 میں نوٹ بندی کا زمانہ تھا تو اسی زمانے میں ان کی شادی لکھنؤ میں طے ہوگئی تھی، تو انہوں نے بذریعہ واٹس ایپ اپنی شادی کا دعوت نامہ بھی بھیجا تھا، لیکن ضروری کام کی وجہ سے شرکت نہ کرسکا، اور اسی طرح سے کئی بار سڑک چلتے ملاقات ہوئی یہاںتک کہ انہوں نے مجھے کئی بار اپنی رہائش گاہ پر بلایا، لیکن دہلی کی مصروفیات بھری زندگی کے باعث نہ جاسکا اور جیسے ہی مجھے ان کے بیماری کی خبر ملی تو میں فوراً 20 فروری 2023 کو ان کی رہائش گاہ ابوالفضل جاپہنچا، عیادت، تسلی اور اطمینان، اور صبر جیسے کلمات کہہ کر ان کے پاس سے رخصت ہوا، چونکہ وہ تقریباً دو سالوں سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے،ابھی حال ہی میں ہم جامعہ قاسمیہ بالاساتھ کے ابتدائی دور سے وابستہ ساتھیوں نے ان کا خاص خیال کیا تھا،اور رب قدیر سے شفا یابی کے لئے خوب خوب دعائیں بھی کی تھیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، اور رفیق درس احرار اللہ ندوی نے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھے ان کے انتقال کی خبر کردی، جو میرے اوپر بجلی بن کر گری، انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر مرحوم کے حق میں دعائیں کیں،اور اسی طرح سے جب میں نے سوشل میڈیا فیس بک کھولا تو ایک طرف سے ان کے کئی چاہنے والوں میں جن میں گلبرگہ یونیورسٹی سے وابستہ برادر ذی وقار، نوجوان قلم کار، اور’’ متن کے آس پاس‘‘ کے خالق ڈاکٹر سلمان عبدالصمد ندوی،اور روزنامہ انقلاب پٹنہ کے سینئر سب ایڈیٹر شمیم اختر ندوی،اور نوجوان صحافی شاہنواز بدر قاسمی کے علاوہ اور بھی لوگوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے دکھ و درد اور رنج وغم اور دعائے مغفرت کا اظہار اپنی اپنی تحریری شکل میں کیا ہے اور مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ برادر مرحوم کے پسماندگان میں چھ سال کی ایک بیٹی اور ڈھائی سال کا ایک بیٹا اور بیوہ کے ساتھ بھرا پورا کنبہ ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے، اور ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے