ممبئی 28؍ ستمبر
29؍ ستمبر 2008 کو مہاراشٹر کے گنجان مسلم آبادی والے شہر مالیگائوں میں ماہ رمضان کے مبارک ایام میں قلب شہر میں واقع بھکو چوک میں شکیل گڈس کمپنی کے دروازے پر بم دھماکے ہوئے تھے جسمیں 6؍ لوگوں کی موت اور 101 ؍ لوگ زخمی ہوئے تھے جس میں بوڑھے بچے اور خواتین شامل ہیں۔
ایل ایم ایل فریڈم کمپنی کی موٹر سائیکل پر بم نصب کیا گیا تھا جو اتنا شدید تھا کہ پھٹنے کے بعد آس پاس کی عمارتیں ہل گئی تھیں اور کانچ کی کھڑکیاں چٹخ گئیں تھیں۔ آر ڈی ایکس کی مدد سے بنایا گیا بم اتنا خطرناک تھا کہ اس نے مرنے والوںاور زخمیوں کے جسم کو چھلنی کردیا تھا۔
مالیگائوں 2008 ء بم دھماکہ کو آج 16 ؍ سال مکمل ہوچکے ہیں ، خصوصی این آئی اے عدالت میں ٹرائل تو یومیہ کی بنیاد پر چل رہی ہے لیکن متاثرین اور انصاف پسند عوام کی نظروں سے انصاف اوجھل ہوتے جارہا ہے۔ٹرائل کب ختم ہوگا کسی کو نہیں معلوم ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی ٹرائل جلد از جلد مکمل کیئے جانے کا حکم دیا ہے ، کوئی وقت طئے نہیں کیا ہے لیکن اب لگتا ہے ٹرائل ختم ہونے کا وقت آچکا ہے۔سرکاری اور دفاعی گواہان کی گواہی کے بعد استغاثہ نے حتمی بحث شروع کی تھی جس کا اختتام ہوچکا ہے ۔ آنے والے پیر کے دن سے دفاعی وکلاء ملزمین کے دفاع میں بحث کا آغاز کریں گے۔تقریباً دو ماہ تک سرکاری وکلاء نے بحث کی اب یہ دیکھنا ہوگا دفاعی وکلاء کتنا وقت لیں گے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے بم دھماکہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے اس مقدمہ کو 16؍ سال مکمل ہونے پر کہاکہ اس مقدمہ کو یہاں تک لانے کا کریڈیٹ دھماکہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکلاء کو دینا چاہئے کیونکہ اگر وہ بروقت مداخلت نہیں کرتے تو آج ٹرائل اس مقام پر نہیں پہنچتا ملزمین مقدمہ سے ڈسچارج ہوجاتے یا چارج فریم نہیں ہونے دیتے اور مالیگائوں 2006 ءبم دھماکوں کی طرح یہ مقدمہ بھی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا۔بم دھماکہ متاثرین نے بھگواء ملزمین کو ٹرائل کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جس وجہ سے انہیں پروسیس پنیشمنٹ لگنے لگا۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزید بتایا کہ بم دھماکوں کے بعد بھگواء ملزمین کو گرفتار کرنے والی ریاستی اے ٹی ایس کی اس مقدمہ سے عدم دلچسپی تشویش کا باعث ہے۔ مرکز اور ریاست میں اقتدار کی تبدیلیوں کی وجہ سے ایجنسیوں کے رویہ میں بھی تبدیلیاں دیکھی گئیںلیکن مقدمہ کے ہر موڑ پر سیشن عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک بم دھماکہ متاثرین کی مداخلت نے ملزمین کو فائدہ اٹھانے سے روکے رکھا اور انہیں عدالت سے راحت نہیں ملنے دی پھر چاہئے وہ یو اے پی اے سینکشن کا ایشو ہو یا اور کوئی قانونی پہلو۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزید بتایا کہ 30؍ اکتوبر 2018 ءخصوصی این آئی اے عدالت نے ملزمین کے خلاف چارج فریم کیا تھا جس کے بعد باقاعدہ گواہوں کے بیانات کا اندراج شروع ہوا جو 4؍ستمبر 2023ء تک چلتا رہااس دوران استغاثہ نے323؍ سرکاری گواہان کو عدالت میں گواہی کے لیئے پیش کیا۔دفاعی وکلاء نے 8؍ دفاعی گواہان کو عدالت میں گواہی کے لیئے حاضر کیا۔اس مقدمہ میں ابتک 10271؍ دستاویزات ایگزیبیٹ ہوئے ہیں جبکہ 404؍ دستاویزات اور دیگر چیزوں کو آرٹیکل نمبر دیا گیا۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزید بتایاکہ 20؍ جنوری 2009ءو ریاستی انسداد دہشت گرددستہ نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت دیگر ملزمین کے خلاف خصوصی عدالت میں چارج شیٹ داخل کی تھی لیکن اس درمیان مقدمہ التواء کا شکا ررہا ہے جس کے بعد 1؍اپریل 2011؍ کو قومی تفتیشی ایجنسی NIAنے مقدمہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور نیا مقدمہ رجسٹرڈ کیا جس کا نمبر 5/2011 ؍ دیا گیا۔تقریباً پانچ سالوں تک قومی تفتیشی ایجنسی نے اس مقدمہ کی اضافی تفتیش کی اور خصوصی این آئی اے عدالت میں 13؍مئی 2016ء کو اضافی چارج شیٹ داخل کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ اس مقدمہ سے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا کوئی لینا دینا نہیں بلکہ مبینہ سیاسی دبائو میں ریاستی انسداد دہشت گرد دستہ ATSنے ملزمہ کو جھوٹے مقدمہ میںپھنسایا ہے، این آئی اے نے اے ٹی ایس افسر پر ایک ملزم کے گھر آر ڈی ایکس رکھنے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔ اضافی چارج شیٹ داخل کرتے ہوئے این آئی اے نے خصوصی جج سے ملزمہ کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی گذارش کی جس کے خلاف سب سے پہلے بم دھماکہ متاثرین نے آوزا بلند کی اور خصوصی این آئی اے عدالت میں اے ٹی ایس کی تفتیش کی بنیاد پر مدلل دلائل پیش کیئے جس کے بعد خصوصی جج نے این آئی اے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ملزمہ کے خلاف دہشت گردانہ الزامات کے تحت مقدمہ چلائے جانے کا حکم دیا۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزیدکہا کہ این آئی اے کی اضافی تفتیش کا ملزمین کو فائدہ ملا اور انہیں یکے بعد دیگر ےضمانت مل گئی لیکن انہیں مقدمہ سے خلاصی نہیں مل سکی جس کی وجہ سے آج بھی انہیں عدالت کا چکر لگانا پڑ رہاہے ۔
اس مقدمہ کا سامنا کررہے سوامی دیانند پانڈے عرف سدھاکر دھر دویدی نے بم دھماکوں میں ہلاک ہونے اور زخمی ہونے والوں کی میڈیکل رپورٹ کو ماننے سے ہی انکار رکردیا اوریہ کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور زخمیوں کی رپورٹ جعلی ہے جسے اے ٹی ایس نے تیار کیا ہے تاکہ ملزمین کو دہشت گردی جیسے سنگین الزامات میںپھنسایا جاسکے۔ ملزم کی جانب سے میڈیکل رپورٹ قبول نہیں کرنے کی وجہ سے این آئی اے کو 101؍ گواہان کو عدالت میں پیش کرنا پڑی جنہوں نے بم دھماکوں کی وجہ سے ہونے والے زخموں کے تعلق سے عدالت کو بتایا، دوران جرح سوامی دیانند پانڈےکے وکلاء نے زخمی گواہوں پر الزام عائد کیاکہ وہ عدالت میں جھوٹی گواہی د ے رہے ہیں اور جس زخم کی وہ بات کررہے ہیں وہ بم دھماکوں سے ہونے والے زخم نہیں ہیں۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزید کہا کہ خصوصی این آئی اے عدالت کے جج اے کے لاہوٹی اس مقدمہ کی یومیہ سماعت کررہے ہیں اور امید ہے کہ وہی اس مقدمہ کا فیصلہ صادر کریں گے۔ ملزمین سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، میجررمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجئے راہیکر، کرنل پرساد پروہت، سدھاکر دھر دویدی اور سدھاکر چترویدی مقدمہ کاسامنا کر رہے ہیں۔