آہ! قاری سعید الرحمن صاحب فُرقانیؒ

ابھی کیا ہے تجھے ڈھونڈیں گے اک دن کارواں والے
کہ مر جانے پر قدرِ آدمی معلوم ہوتی ہے

موت ایک ایسی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا، دنیا میں بہت سے لوگ کئی چیزوں کے انکاری مل جائیں گے؛ حتی کہ خدا کا بھی انکار کرنے والے لوگ مل جائیں گے، لیکن موت کا انکار کرنے والا کوئی بھی نہیں ملے گا، کیونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس مرحلہ سے ہر جاندار کو گزرنا ہے، خواہ انبیاء ہوں یا صحابہ، انسان ہوں یا جانور، علماء ہوں یا جہلاء، مومن ہوں یا کافر، عقلمند ہوں یا بے عقل، امیر ہوں یا غریب، محلوں میں رہنے والے ہوں یا جھونپڑیوں میں رہنے والے، شہری ہوں یا دیہاتی، چاہے مرضی ہو یا نہ ہو، ہر ایک کو بہر حال یہاں سے جانا ہے۔
ارشاد باری ہے: ”كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ“۔ ترجمہ: ”ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے“۔
ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے: ”كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ، وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ“۔ ترجمہ: ”اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی، فضل و کرم والی ذات باقی رہے گی“۔

آج وه، کل ہماری باری ہے
موت سے کس کو رست گاری ہے

دیگر مرحومین کی طرح میرے خُسر صاحب جناب قاری سعید الرحمن صاحب مرحوم بھی ۱۲/ ستمبر ۲۰۲۴ء بروز جمعرات بعد ظہر تقریباً ساڑھے تین بجے اس فانی دنیا سے دارِ بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس واقعۂ فاجعہ کی خبر اس وقت موصول ہوئی جب میں اپنی شریکِ حیات، اہلیہ محترمہ کو ساتھ میں لے کر ان کے ہاتھ میں تکلیف کی وجہ سے ہاسپٹل گیا ہوا تھا، مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر صاحب کے پاس نمبر ہی لگایا تھا کہ فون پر یہ اَندوہ ناک خبر ملی، پہلے کچھ وقت کیلۓ تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ قاری صاحب صحیح و سالم، تندرست اور کوئی بیماری نہ ہونے کے باوجود کیسے ہم سے جدا ہو سکتے ہیں، مگر اہلیہ محترمہ کو مسلسل سسکیاں بھرتے دیکھ آخر یقین ہو ہی گیا کہ قاری صاحب اس جہاں سے رخصت ہو گئے ہیں۔
ہم وہاں سے فوراً لوٹے، اور ان کے آخری دیدار و جنازہ میں شریک ہونے کے لیے بنگلور روانہ ہو گئے، تقریباً رات دو بجے وہاں پہنچ گئے، اور اگلے دن ۱۳/ ستمبر ۲۰۲۴ء بروز جمعہ بسم اللہ مسجد، بسم اللہ نگر، بنگلور میں بعدِ نمازِ جمعہ وہاں کی مشہور شخصیت حضرت مفتی افتخار احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم کی اقتداء میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی توفیق ملی، نمازِ جنازہ میں ایک جم غفیر نے شرکت کی، یہاں تک کہ جگہ کی قلت بھی محسوس ہوئی جو عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے، اور تدفین تِلک نگر (بنگلور) قبرستان میں عمل میں آئی۔

وطن
قاری صاحب مرحوم کا آبائی وطن ”ڈمروبر، ضلع سنت کبیر نگر، یوپی“ ہے، لیکن معاش کی خاطر قریباً ۲۰/ سال پہلے ”رائچوٹی، ضلع کڑپہ، آندھرا پردیش“ منتقل ہو گئے تھے، یہیں تدریس و امامت کے فرائض انجام دیتے رہے تھے، اور درمیان میں کبھی کبھار اپنے آبائی وطن بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور سب رشتہ داروں سے ملاقات فرماتے تھے، رائچوٹی سے ہی اپنی اولاد میں سے تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کی شادیاں بھی کیں، جو اَب اپنے اپنے مقام پر زندگی گزار رہے ہیں۔
قاری صاحب مرحوم کے دوسرے نمبر کے صاحب زادے عبدالرحمن الخبیر سلمہ بنگلور میں پڑھاتے ہیں، وہیں بنگلور میں صاحب زادہ کے مکان میں انتقال کا واقعہ پیش آیا تھا۔

موت کا سبب
قاری صاحب مرحوم کسی مسلسل بیماری کا شکار نہ تھے، بلکہ ایک دم چست درست تھے، انتقال سے تین چار دن پہلے یوپی کے سفر سے لوٹے تھے، ان کے دونوں چھوٹے صاحبزادے بنگلور کے کسی مدرسہ میں حفظ قرآن کی تعلیم میں مشغول ہیں، ان سے ملنے کے لیے جمعرات آنے کے منتظر تھے تاکہ ان سے ملاقات کرکے رائچوٹی جا سکیں، مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعرات کے دن ہی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بغرضِ قیلولہ آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے، غالباً نیند لگ گئی تھی، اسی دوران دونوں صاحبزادے مدرسہ سے آگئے تھے، بچے والد صاحب کو سوتا دیکھ کر کھیلنے میں مشغول ہوگئے، کچھ دیر کے بعد اچانک طبیعت بگڑنے لگی، اور طبیعت مسلسل اتنی خراب ہوئی کہ قریباً آدھا گھنٹہ کے اندر روح پرواز کر گئی، بعض لوگوں نے اہل خانہ سے موت کے آثار معلوم کرنے بعد ”ہارٹ اٹیک“ کا نام دیا، اور بعض نے طبعی طور پر موت واقع ہونے کی بات کہی۔ والله اعلم بحقیقۃ الحال۔

چند خوبیوں کا مختصر تذکرہ
قاری صاحب مرحوم خوش روح، ہنس مکھ، خوش مزاج انتہائی مہمان نواز، خود دار، ارادہ کے پکے، کریم النفس، فراخ دست، کشادہ رو، فقراء سے محبت اور علماء کی عزت و احترام خوب کرتے تھے، شکل و شمائل اور رہن سہن میں علماء کی سی زندگی بسر کرتے تھے، اللہ کے دین کے معاملہ میں حمیت وغیرت ان پر غالب آ جاتی تھی تو پھر کسی لومة لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے، کسی کے احسان کے بوجھ تلے دبنا ان کو قطعی ناپسند تھا، وعدہ کے سچے اور صفائئ معاملات کے خوگر تھے، اور دیگر بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔

اولاد و پسماندگان
قاری صاحب مرحوم کے پسماندگان میں چار صاحبزادے حمید الرحمن، قاری عبدالرحمن، ضیاء الرحمن، عطاء الرحمن، محمد اور احمد کے علاوہ بیوہ اور چار صاحبزادیاں بقید حیات ہیں۔
ابھی عجلت میں بس اتنا ہی لکھنے پر اکتفاء کرتا ہوں، کبھی فرصت میسر ہوئی تو تفصیلی حالات قلم بند کرنے کا ارادہ ہے ان شاءاللہ۔
دعا ہے کہ خدائے رحیم و کریم انہیں درجاتِ عالیہ نصیب فرمائے، اپنی خصوصی رضوان و رحمت سے ہم کنار کرے اور زلات و تقصیرات کو حسنات میں تبدیل فرما دے، پسماندگان اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور ان کا نعم البدل دنیا و آخرت میں عطا فرمائے۔ آمین۔

ہم نے چاہا تھا کہ نہ ہو، مگر ہوئی صبحِ فراق
موت کا جب وقت آجاتا ہے تو ٹلتا نہیں

ازقلم: عبدالاحد بستوی
امام و خطیب مسجد عمر بن خطاب ڈون، ضلع نندیال، آندھرا پردیش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے