مہک رہی ہے فضائے ارم مدینے میں!

یقینا مکہ سے مدینہ کا سفر محبت کا سفر ہے ،دل کی دھڑکنوں کا سفر ،عقیدت و محبت کا سفر ہے، احترام و تقدس کا سفر ہے ،آنکھوں سے رواں آنسوؤں کا سفر ہے، جذبات و احساسات کا سفر ہے۔یہاں آنے والا ہر شخص اور ہر فرد خوش نصیب اور سعادت مند ہے ، کیونکہ جہان عشق کا بیت الحرم یہیں ہے ،جہاں ہر وقت سحاب کرم برس رہا ہوتا ہے ، شرط یہ کہ یہاں آنے والے کو بصارت کے ساتھ بصیرت بھی حاصل ہو ۔ یہاں پہنچنے والا اور یہاں پر حاضر ہونے والا محبت و عقیدت کے جذبات کے ساتھ مدینة الرسول اور زیارت روضئہ رسول کے آداب و لحاظ کے ساتھ حاضر ہوتا ہے، تو وہ اپنے اندر جو کچھ محسوس کرتا ہے ،اس کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔
شاعر نے کیا خوب حقیقت کی ترجمانی کی ہے کہ

صبا خیال سے رکھنا قدم مدینے میں
ہے ذرہ ذرہ چراغ حرم مدینے میں
ہوا میں آپ کی خوشبو فضا میں آپ کا رنگ
جہان عشق کا بیت الحرم مدینے میں
ہے قرب ساقی کوثر کی سلسبیل رواں
مہک رہی ہے فضائے ارم مدینے میں
یہ زخم دل تو وہیں جاکے مندمل ہونگے
کہ ہے نصیب مداوائے غم مدینے میں
جبیں پہ ہوں عرق انفعال کے تارے
برس رہی ہے مری چشم تر مدینے میں
چمک رہے ہوں ستاروں کی طرح داغ جگر
سلام ہونٹوں پہ ہو دم بدم مدینے میں
ادھر سے پھیلیں بصد احترام دست سوال
ملے ادھر سے نوید کرم مدینے میں
کچھ ایسے گنبدِ خضرا کے دھیان میں گم ہیں
کہ جیسے آنکھوں کا اٹکا ہے دم مدینے میں
یہ منتہائے تمنا خدا نصیب کرے
ہوں روز و شب یونہی نعمتیں رقم مدینے میں
تمہارا ذوق طلب سر و خام ہے ورنہ
برس رہا ہے سحاب کرم مدینے میں

اور یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں مرنے اور اسی دیار کے ہوکر رہنے کی تمنا کرتے ہیں اور کتنے کی تمنا پوری بھی ہو جاتی ہے ۔صاحب دل و صاحب نسبت بزرگ حضرت شاہ نفیس الحسینی رح اپنے اشعار میں کہتے ہیں کہ

یہی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے
مدینے میں مرنے کو جی چاہتا
یہ کس جان جانا کا فیض نظر ہے
کہ جی سے گزرنے کو جی چاہتا ہے
بگڑنے میں ہی عمر گزری ہے ساری
خدایا ! سنورنے کو جی چاہتا ہے

حکیم اختر صاحب رح نے قیام مدینہ کے عنوان سے اپنے اشعار میں فرماتے ہیں۔

یہ صبح مدینہ یہ شام مدینہ
مبارک تجھے ہو قیام مدینہ
بھلا جانے کیا جام و مینائے عالم
ترا کیف اے خوش خرام مدینہ
مدینہ کی گلیوں میں ہر اک قدم پر
ہو مد نظر احترام مدینہ
مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
بڑا لطف آتا ہے نام مدینہ
نگاہوں میں سلطانیت ہیچ ہوگی
جو پائے گا دل میں پیام مدینہ
سکون جہاں تم کہاں ڈھونڈنے ہو
سکون جہاں ہے نظام مدینہ
ہو آزاد اختر غم دو جہاں سے
جو ہو جائے دل سے غلام محمد

اور دیار مدینہ کے عنوان سے لکھتے ہیں ،،

نظر ڈھونڈتی ہے دیار مدینہ
ہیں دل اور جاں بے قرار مدینہ
وہ دیکھو احد پر شجاعت کا منظر
شہیدوں کے خون شہادت کا منظر
وہ ہے سامنے سبز گنبد کا منظر
اسی میں تو آرام فرما ہیں سرور
ابو بکر و فاروق و عثمان و حیدر
یہیں تھے یہ پروانے شمع انور
یہیں سے تو اسلام پھیلا جہاں میں
مدینہ کا شہرہ ہے ہفت آسمان میں
نشان نبی ہے یہ مسجد قبا کی
ہے قندیل طیبہ نبی کی ضیا ہے
مدینہ کے دیوار و در دیکھتے ہیں
عجب حال قلب و جگر دیکھتے ہیں
یہ مسکن ہے شاہ مدینہ کا اختر
فلک بوسہ زن ہے یہاں کی زمیں پر

اس شہر مقدس اور مہبط وحی کے بارے میں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ!
حضرت ابراھیم خلیل علیہ السلام بڑے مقتدر نبی اور تیرے مخلص ترین دوست تھے ۔انہوں نے شہر مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور تو نے قبول کی ۔یا اللہ! میں بھی نبی ،تیرا رسول ،تیرا بندہ اہل مدینہ کے لیے دعا گو ہوں ۔
فرمایا ،، مدینہ جو مجھ سے پہلے یثرب کہلاتا تھا، یعنی اذیتوں کا مقام جہاں بیماریاں عام تھیں، ثنیة الوداع سے آگے کوئی شخص اس وقت تک نہ جاتا تھا، جب تک گدھوں کی سی آواز تین بار نکال نہ لیتا تھا کیونکہ انہیں وہم تھا کہ ایسا نہ کیا تو اسے وہاں وبائی بیماریاں لگ جائیں گی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سرزمین پاک کے بارے میں فرمایا ،، یاد رکھو میرے حرم کی سرزمین انبیاء کی سرزمین ہے اور اب کسی امتی کی زبان سے بھول کر بھی اس سرزمین کا نام یثرب نکل جائے تو اسے چاہیے کہ وہ دس بار مدینہ منورہ کہے بلکہ وہ تین بار استغفار کہے ۔
آپ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ مقام راحت و مسرت ہےاور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو وہیں مدفون فرماتے ہیں، جو جگہ اسے زیادہ پیاری ہو ۔مجھے مدینہ کی زمین سے بے پناہ محبت ہے اور اس محبت کو میں نے اپنے اللہ سے مانگ لیا ہے ،تمہارے ایمان کی کسوٹی اسی محبت کو قرار دیا ہے ،چنانچہ تم میں سے جو بھی صاحب ایمان ہوگا،وہ مدینہ کی طرف یوں دوڑ کر آئے گا، جس طرح سانپ اپنے بل میں دوڑ کر داخل ہوتا ہے ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا ،، میرے اس شہر ایمان میں جو لوگ قیام کریں گے دوران موسم یا حالات کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے صبر کریں گے ،میں قیامت کے دن ان کی شفاعت کا وعدہ کرتا ہوں ۔
آپ نے فرمایا ،، فرشتے مدینہ کے پہاڑوں میں خصوصی راستوں پر متعین پاسبانی کر رہے ہیں تاکہ طاعون اور دجال سے اس شہر کی مدافعت کرسکیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے گھر یعنی میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے ۔ ۔۔بخاری و مسلم۔۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب،، جذب القلوب،، میں لکھا ہے کہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا قصد کرنا اور آپ کی مسجد کی زیارت سے مشرف ہونا، حج مقبول کے برابر ہے، جو حج ادا کرکے آیا اس کی بھی قبولیت کا ذریعہ اور سبب ہے ۔۔
غرض مدینہ منورہ کا سفر ایک عبادت ہے اور بہت ہی اہم عبادت ہے اور بڑی جانبازی اور دل فروشی کی منازل ہیں، یہ سفر عشق ؤ محبت کا سفر ہے، یہ شوق و ذوق اور اشتیاق و ارادہ کی واری ہے ۔ پس یہ بھی ضروری ہے کہ تمام آداب و مستحبات کو ملحوظ رکھے اور یہاں آواز کو پست رکھے ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بے ادبی نہ ہو جائے ۔
الحمدللہ آج مدینہ منورہ میں قیام کا چھٹا دن ہے ، آج جمعہ کی نماز حرم نبوی میں ادا کریں گے ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے ،روضہ اطہر پر حاضری دینے ،بقیع غرقد ،مسجد قبلتین کی زیارت کرنے احد و قبا کو جانے اور دیگر مقامات مقدسہ کو دیکھنے کی سعادت مل رہی ہے ،کل ہمارے ایک مخلص کرم فرما جناب مولانا ولی اللہ صاحب ولی عظیم آبادی جو صاحب دل عالم ہیں اور دامن احد کی مسجد سلیمانیہ میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں، شعبئہ تحفیظ میں خدمت انجام دیتے ہیں اور اچھے شاعر بھی ہیں مولانا سید طاہر حسین گیاوی رح کے داماد ہیں،چالیس سال سے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رہ رہے ہیں، وہ میرے مخلص قارئین میں سے ہیں، انہوں نے مجھے اور مولانا عبد العلیم ندوی کو مع اہلیہ اپنے گھر مدعو کیا ،اپنی گاڑی لے کر خود آئے ، ضیافت کا پورا پورا حق ادا کیا اور جبل احد اور دیگر تمام مقامات مقدسہ کی زیارت کرائی ۔ جبکہ دو دن پہلے بھی ٹور والوں نے گروپ کے تمام ساتھیوں کو ان مقامات مقدسہ پر پہنچانا تھا ۔۔ اللہ کرے ہم سب کو بار بار یہ سعادت نصیب ہو ۔
ان شاءاللہ ان تمام مساجد اور مقدس مقامات کی تفصیلات اور تاریخی و دینی حیثیت کو ہم واپسی پر سفر نامہ میں قارئین کے لیے ان ہی کی خواہش پر قسط وار لکھیں گے ۔

ازقلم: محمد قمر الزماں ندوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے