حیدرآباد: 25؍اکتوبر (پریس ریلیز)
جامعہ منصورہ مغلپورہ حیدرآباد میں وقف ترمیمی بل قانون و شریعت کی روشنی میں ایک خصوصی اجلاس سے ڈاکٹر آصف عمری نائب امیر جمعیت اہل حدیث حیدرآباد و سکندآباد نے کہا کہ اوقاف ہمارا قیمتی سرمایہ ہے اور ہمارے اسلاف نے اس ملک میں ہزاروں لاکھوں زمینات‘اراضیات اور جائیدادیں رضائے الہی کے خاطر وقف کی ہیں اسکو تبدیل کرنے کی حکومت کو شش کررہی ہے ہم مسلمان کسی بھی صورت میں وقف ترمیمی بل کو قبول نہیں کریں گے عام مسلمانوں کو اس سے آگاہي ضروري ہے۔
وقف ترمیمی بل 2024سے متعلق محترمہ ایڈوکیٹ جلسہ صاحبہ رکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا کہ موجودہ حکومت وقف کے قانون کو ترمیم و تبدیل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے یہ وقف کو تبدیل کرنے کا قانون داراصل ہمارے ایمان و دین کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے وقف کرنے والا جب ایک مرتبہ اپنی پراپرٹی اللہ کیلئے وقف کرتا ہے تو اس کا مالک یعنی Owner اللہ ہے اس کا کوئی دوسرا مالک نہیں بن سکتا‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے مرنے کے بعد تین نیکیاں اسکے لئے مرنے کے بعد بھی ثواب جاریہ ہوجاتا ہے‘نفع بخش علم‘نیک اولاد کی دعائیں اور صدقہ جاریہ. ہمارے اسلاف نے اپنی زندگی میں اللہ کی رضا مندی کیلئے بہت ساری زمینات اور دولت کو وقف کیا تھا۔ ہمارے ملک میں ہمارے حکمرانوں اور بہت سارے مسلمانوں نے اپنی پراپرٹیاں وقف کی ہیں وقف پراپرٹی پر کوئی قابض نہیں ہو سکتا حکومت وقت بھی أس کی مالک نہیں‘سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ بات بتائی گئی تھى کہ مسلمانوں کی وقف پراپرٹیوں کو اسکے منشاء کے تحت استعمال کیا جائے‘وقف قانون1995میں بنایا گیا تھا لیکن اس وقت اس قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش جاری ہے۔محترمہ جليسہ صاحبہ نے اس بل کے خطرات پر نشاندہی کی‘سنٹرل وقف کونسل سے وقف کی نگرانی ہوئی ہے۔ ہر ریاست کا وقف بورڈ ہوتا ہے۔مسلمانوں کی زمہ داری ہے کہ ان کو وقف کی جانکاری ہو اور اس سے بھر پور واقف ہوں‘کیوں کہ یہ قانون وقف میں اگر حکومت تبدیل کرتی ہے تو یہ مساجد مدراس دواخانے اور وقف شدہ املاک و اشیاء خطرہ میں ہے‘وقف میں تبدیل کرنے کیلئے 44قانون بنائے گئے گویا یہ وقف قانوں مکمل تبدیل بلکہ مکمل ختم کرنے کا قانون ہے۔یہ موجودہ وقف ترميم قانون صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ عیسائیوں‘سکھوں اور دیگر طبقات والوں کیلئے ایسا کوئی قانون نہیں‘ہمارے ملک ہندوستان میں جہاں مسلمانوں نے هزار برس حکومت کی اور اس ملک کی ترقی کیلئے اپنی جائیداد‘دولت وقف کی ہیں آج مسلمان کیلئے نئے نئے قوانین بناکر اس ملک سے بے دخل کرنے کی سازشیں جاري ہیں۔ وقف بورڈ مینجمنٹ نے انتخابات کے بجائے حکومت اپنی طرف سے انکی مرضی سے افراد منتخب یا تقرا کرے گی۔ حکومت وقف بورڈ کے چیرمین کو خود بنائے گی یہ خطرہ ہے‘ کلکٹر کے زریعہ وقف بورڈ میں اختیارات ہوتے جارہے ہیں یہ بھی غیر منصفانہ قانون ہے۔آخر میں اجلاس کے اراکین اور شرکاء نے طئے کیا کہ عامتہ المسلمین مرد و خواتین کو اسکے نقصانات اور خطرات سے وقف کروانا ضروری ہے کیوں کہ یہ بل ہمارے ایمان و دین کیلئے خطرہ ہیں لہذا اس سے اگاہی ضروری ہے۔