انتخابی نتائج‌

ہریانہ اور جموں کشمیر کے انتخابی نتائج کا اعلان ہو چکا ہے، دونوں جگہ نوے نوے نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے تھے، توقع کی جا رہی تھی کہ ہریانہ میں کانگریس اس بار آجائے گی، پیشگی قیاس آرائی (اگزٹ پول) والے بھی سب کے سب ایک ساتھ تھے کہ اس بار بی جے پی ہریانہ انتخاب نہیں جیت پائے گی، لیکن نتائج خلاف قیاس آئے، جس نے سب کو متحیر کر دیا، خود جے پی والوں کو بھی ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ کانگریس پر سبقت لے جائے گی، لیکن اس نے اڑتالیس سیٹ جیت کر تیسری بات حکومت بنانے پر اپنی مہر لگادی، کانگریس کو صرف سینتیس(37) سیٹیں ملیں، اندازہ ستر سیٹوں تک کا لگایا جا رہا تھا، آر، این، ایل، ڈی دو اور آزاد امیدوار تین پر سمٹ کر رہ گیے، اطمینان کی بات یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ووٹ حاصل کرنے کے اعتبار سے 39.39فی صد پر رہے، فرق صرف0.85فی صد کا رہا،اس سے پارٹی کی مقبولیت کا پتہ چلتا ہے، البتہ حکومتیں سیٹوں کی کثرت سے بنا کرتی ہیں، اور وہ بی جے پی کے پاس ہے۔
کانگریس نے کسان پہلوان اور جوان پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تھی، کسانوں نے مودی حکومت کے خلا ف لمبی لڑائی لڑی تھی اور اب بھی وہ بی جے پی سے مطمئن نہیں تھے، فوج میں ہریانہ سے زیادہ جوان جاتے ہیں، کانگریس نے اگنی ویر کے خلاف مہم چھیڑ کر جوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، جنتر منتر پر پہلوانوں نے جو دھرنا دیا اور جنسی ہراسانی پر جو احتجاج کیا، اس سے خواتین اور کھلاڑیوں کے ووٹ کانگریس کی طرف آئے تھے، اس لیے کانگریس نے وینیش پھوگاٹ کو علامتی طور پر جالون سے ٹکٹ دیا تھا، ونیش پھوگاٹ خود تو جیت گئی، لیکن ریاست میں کانگریس ہار گئی، ہریانہ میں جاٹ اور غیر جاٹ برادری کے ووٹ الگ الگ خانوں میں گیے، جاٹوں نے کانگریس کو ووٹ دیا، غیر جاٹ رائے دہندگان کو متحد کرنے میں بی جے پی کامیاب ہو گئی، اور کانگریس کا یہ دعویٰ اور نعرہ کہ چھتیس (36)برادریاں ہمارے ساتھ ہیں، صرف نعرہ بن کر رہ گیا،البتہ مسلم رائے دہندگان کسی تفرقہ کے شکار نہیں ہوئے اور انہوں نے پارلیامنٹ انتخاب کی پالیسی کے مطابق ہی کام کیا، چنانچہ کانگریس کے سارے مسلم امیدوار جیت درج کرانے میں کامیاب ہو گیے، مسلم امیدوار بمقابلہ مسلم امیدوار کی سیاست کومسلمانوں نے اچھی طرح سمجھا اور جیتنے والے امیدوار کو یک طرفہ ووٹ دے کر اس کامیابی سے ہم کنار کیا، اس سے ہریانوی مسلمانوں کے سیاسی شعور کا پتہ چلتا ہے، بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نایب سنگھ سہنی وزیر اعلیٰ ہو سکتے ہیں، وہ انتخاب سے صر ف دو سو(200)دن قبل بی جے پی کی طرف سے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بنے تھے اور انتخاب انہیں کی سر براہی میں ہوا تھا، گو وہاں کے سابق وزیر اعلیٰ موہن لال کھٹر ان کے سخت مخالف ہیں اور وہ روڑے بھی اٹکا سکتے ہیں۔
غورطلب بات یہ بھی ہے کہ کانگریس جیتتے، جیتتے ہار کیسے گئی، اس کی وجہ وہاں کانگریس کے کارکنوں کی سرد مہری رہی، کئی کئی بوتھ پر تو کوئی تھا ہی نہیں، ٹکٹ کی تقسیم میں تاخیر، باغی آزاد امیدوار کامیدان میں کودنا بھی نقصان پہونچاگیا، کم از کم پندرہ سیٹوں پر کانگریس کے باغی امیدوار وں نے کانگریس کو شکست سے دو چار کیا، کماری شلجا نے گروپ بازی کی وجہ سے اپنے کو انتخابی دوروں سے دور رکھا، اس کا اثر بھی کانگریس کی انتخابی سیاست میں دیکھنے کو ملا۔اس کے علاوہ غیر ضروری خود اعتمادی نے بھی کانگریس کا بیڑہ غرق کرنے میں اہم رول ادا کیا، اگر وہ انڈیا اتحاد کو ساتھ لے کر انتخاب لڑتی تو یہ نوبت نہیں آتی۔
ہریانہ کے برعکس جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے فتح کا پرچم لہرایا، دس سال بعد ہوئے انتخاب میں کانگریس کوصرف چھ سیٹیں ملیں اور 2014کے مقابلہ چھ سیٹ کا نقصان ہوا، لیکن دونوں پارٹی کے مشترکہ طور پر انتخاب لڑنے کی وجہ سے نیشنل کانفرنس کو اس کا فائدہ ملا اور وہ بیالیس سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی، یہ 2014کے مقابلہ ستائیس سیٹ زیادہ ہے اس نے اپنے ووٹ کا تناسب بھی 2.23فی صد بڑھایا، اس کو اس بار 23.43%فیصد ووٹ ملے، کانگریس نے 11.9%ووٹ حاصل کیا او رگذشتہ انتخاب کے مقابل 6.23%فی صدکی کمی آئی، بی جے پی نے 29اور پی ڈی پی نے صرف تین سیٹوں پر فتح حاصل کی اور اسے گذشتہ انتخاب کے مقابلہ پچیس (25)سیٹوں کا نقصان ہوا، جبکہ بی جے پی کو چار سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ اور کشمیر علاقہ میں اس کا کھاتا نہیں کھل پایا۔
مبصرین کی رائے میں جموں کشمیر میں ایسی ہی توقع تھی، کشمیری عوام دفعہ 370اور 15Aہٹانے کے خلاف تھے،انہیں مرکزی سرکار کے ماتحت کرنے اور ایل جی کے ذریعہ حکومت چلائے جانے کے طریقۂ کار سے بھی ناراضگی تھی، وہ جموں کشمیر کا ریاستی درجہ واپس کروانا چاہتے تھے، ساری پارٹیاں یہی کہہ رہی تھیں، لیکن عوام نے نیشنل کانفرنس پر بھروسہ جتایا، اور اسے حکومت سازی کا موقع فراہم کیا، فاروق عبد اللہ نے جو نیشنل کانفرنس پارٹی کے صدر بھی ہیں کے صاحب زادہ عمر عبد اللہ سابق وزیر اعلیٰ کشمیر اگلے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے میں کامیابی حاصل کی،پارٹی کے ممبران نے فیصلہ کر لیا ہے، عمر عبد اللہ کے لیے وہاں حکومت چلانا پہلے کی طرح آسان نہیں ہوگا، پہلے جموں کشمیر ایک ریاست تھی اور اب وہ مرکزی حکومت کے تحت ہے، ایسے میں سارے اختیار لفٹنٹ گورنر (L.G)کو حاصل ہوں گے،ا ور چاہ کر بھی وزیر اعلیٰ بہت کچھ نہیں کر پائیں گے، جیسا کہ دہلی میں ہو رہا ہے، سارے اختیارات ایل جی کے پاس ہیں، اور عاپ کی حکومت برائے نام ہے، اس کے خلاف جس نے بھی سر اٹھایا وہ آئی ڈی اور سی بی ٓئی کے ذریعہ جیل کی ہوا کھارہا ہے، یا کھا کر واپس لوٹا ہے، کشمیر میں بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔
کشمیری عوام نے پی ڈی پی کو سبق سکھایا ہے، پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے وہاں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، عوام نے اسے قطعاً ًپسند نہیں کیا تھا، اس نا پسندیدگی کا ہی نتیجہ ہے کہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کو اپنی خاندانی سیٹ پربھی منہہ کی کھانی پڑی اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس طرح آئندہ پانچ سالوں کے لیے پی ڈی پی کا سیاسی وجود بند بستے میں چلا گیا ہے، یہ ان حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے جو خود غرضی اور ذاتی مفاد کے تحت سیاسی سمجھوتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے