سیرت نگاری ایک ادبی اور تاریخی فن ہے، جس میں کسی شخصیت یا کسی شخص کی زندگی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس فن میں اسی شخصیت یا شخص کے مخصوص واقعات، احوال اورخدمات پیش کئے جاتے ہیں، جن کی شخصیت اہم ہوتی ہے، تاکہ ان کی زندگی ایک مثالی بن کر سامنے آئے ، یہی وجہ ہے کہ سیرت نگاری عموماً عظیم شخصیت یا فنکار کی کی جاتی ہے جو تاریخی، فکری یا سماجی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو دین اسلام کے لئے مبلغ اور انسانوں کے لئے کامل اور حسین ترین نمونہ بناکر مبعوث کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اسوۂ حسنہ ہے، جو اخلاق وصفات، مزج وکردار، عادات ومعاملات، غرض ہر چیز میں عملی نمونہ ہے۔ آپ کی شب وروز کی زندگی اور آپ کے اعمال واخلاق کےتذکرہ کے بغیر آپ کی سیرت نامکمل رہے گی۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی اسوۂ حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌلِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًاؕ۰۰۲۱ ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہےہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہوں،اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہوں۔
بہار ملک کا ایک اہم صوبہ ہے، یہاں بڑے بڑے علماء اور دانشوران ، صوفیاء اور مشائخ پیدا ہوئے۔ انہوں نے بھی سیرت پر کتابیں تصنیف کیں، ان میں سے سیرت کے موضوع پر بہار کےچند مشاہیر علماء کی تحریر کردہ کتابوں کا علمی تجزیہ پیش ہے۔
(۱) مولانا سید سلیمان ندوی: مولانا سید سلیمان ندوی برصغیر کے نامور سیرت نگار، عالم ،مورخ اور مصنف تھے۔ ان کی پیدائش قدیم ضلع پٹنہ اور موجودہ ضلع نالندہ کے ایک مشہور قصبہ دیسنہ میں ۲۲؍ نومبر ۱۸۸۴ء کو ہوئی۔
مولانا کی بہت سی تصانیف ہیں، ان میں سے عرب وہند کے تعلقات، عرب کی جہاز رانی، حیات شبلی، رحمت عالم، نقوش سلیمانی، حیات امام مالک، اہل السنہ والجماعۃ، یاد رفتگاں، سیرافغانستان، مقالات سلیمان، عمر خیام، دروس الادب، خطباب مدراس، ارض القرآن، ہندوئوں کی علمی وتعلیمی ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوشش، بہائیت اور اسلام ،سیرت عائشہ، خواتین اسلام کی بہادری، ہجرت پاکستان مشہورومعروف ہیں۔مولانا کی وفات ۲۲؍ نومبر ۱۹۵۳ء کو کراچی میں ہوئی۔
حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کی سیرت کے موضوع پر تین کتابیں ہیں، رحمت عالم، خطبات مدراس اور سیرت النبیؐ، یہ تینوں کتابیں نہایت ہی اہم اور مقبول ہیں، البتہ سیرت النبیؐ ایک عظیم شاہکار ہے۔
سیرت النبی: یہ کتاب اردو کی سب سے زیادہ مایہ نازکتاب ہے، جو علامہ سید شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی مشترکہ کاوش ہے۔ یہ سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، یہ کتاب سیرت کے موضوع پر عظیم شاہکار ہے، یہ اردو زبان ہی نہیںبلکہ دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی سیرت کے موضوع پر بہترین کتاب شمار کی جاتی ہے۔ اس کتاب کی تالیف علامہ شبلی نعمانی نے شروع کی، انہوں نے پہلی دوجلدیں لکھیں کہ ان کا انتقال ہوگیا، باقی پانچ جلدوں کی تکمیل ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے کی۔سیرت النبی کا پہلا ایڈیشن ۱۳۳۶ھ؍ ۱۹۱۷ شائع ہوا اور آخری چھٹی جلد ۱۹۳۸ء میں مکمل ہوئی۔ گویا مکمل سیرت النبی کی تالیف میں تقریباً ایک چوتھائی صدی صرف ہوئی۔
سیرت النبی کی مختلف جلدوں کی مشمولات کی فہرست حسب ذیل ہے۔
پہلی جلد : ولادت تا ختم سلسلۂ غزوات
دوسری جلد: عام الوفود یا وفات
تیسری جلد: دلائل ومعجزات
چوتھی جلد: منصب نبوت
پانچویں جلد: عبادات
چھٹی جلد: اخلاقی تعلیمات
ساتویں جلد پر کام جاری تھا کہ مصنف کا انتقال ہوگیا، اس کو جمع ومرتب کرکے سید صباح الدین عبدالرحمٰن ناظم دارالمصنفین نے شائع کی۔ یہ ساتویں جلد معاملات وسیاسیات ہے، یہ کتاب سال۱۹۸۰ء میں طبع ہوئی، اس طرح یہ کتاب سیرت کے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس کتاب کی بعض علاقائی زبانوں میں تراجم بھی ہوئے ہیں۔
پشتوتراجم
آخری پیغمبر، سیرت النبی( پشتو)
سندھی تراجم: سیرت النبی کا سندھی زبان میں ترجمہ مولوی فضل احمد غزنوی نے کیا۔
سیرت النبیؐ جلد ہفتم کے پیش لفظ میں مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی’’ سیرت النبیؐ ‘‘ کے سلسلے میں تحریر کرتے ہیں:
’’سیرت النبیؐ اب بین الاقوامی اسلامی کتب خانہ کی ایسے متاع گراں مایہ علمی شاہکار ہے جس کو کسی تعارف اور کسی مدح وتوصیف کی اب ضرورت نہیں،بلکہ اس کی انفرادیت کا اعتراف اور اس سے اپنے تاثر وعقیدت کا اظہار اپنی خوش مذاقی ودیدہ دری کے ثبوت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
مادح خورشد مداح خود است
(۲) مولانا مناظر احسن گیلانی: بہار کے سیرت نگاروں میں دوسرا نام مولانا مناظر احسن گیلانی کا ہے۔ مولانا گیلانی کی ولادت ۹؍ربیع الاول ۱۳۱۰ھ مطابق یکم اکتوبر ۱۸۹۲ء کو اپنی نانیہال استھاواں ضلع پٹنہ موجودہ ضلع نالندہ میں ہوئی۔
مولانا گیلانی کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں۔ النبی الخاتم، ظہور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوذر غفاری، حضرت اویس قرنی، امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، تذکرہ شاہ ولی اللہ ،سوانح قاسمی تین جلدوں میں، سیرت بانی دارالعلوم، ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت دوجلد، ایک ہندستانی صحابی، اسلامی معاشیات، تدوین حدیث، تدوین قرآن، تدوین فقہ، مقالات احسانی، تذکرہ سورۃ الکہف، مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ، ہزارسال پہلے، احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، دجالی فتنے کے نمایاں خدوخال، ہند اسلامی میں اسلام اور مسلمان، دنیا کے دوبھائی اور دین کے دوبھائی، آغوش موج کا ایک درّتابندہ، عرض احسن، اسلام اور تہذیب کی بعض مشترکہ تعلیمات، سلوک وارادات، کائنات روحانی، مذکورہ کتابوں میں النبی الخاتم ایک شاہکار تصنیف ہے، جو سیرت کے موضوع پر ہے۔
النبی الخاتم: ’’النبی الخاتم‘‘ سیرت کے موضوع پر اپنے انداز کی ایک منفرد ،نادر اور مشہور کتاب ہے۔ مولانا گیلانی نے اس کتاب میں سیرت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ان سے قاری کا ذہن خود عظیم الشان نتائج نکالتا چلا جاتا ہے، اس طرح یہ مختصر سی کتاب علوم ومعارف کا خزانہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس کتاب کے پڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے دل کی دنیا میں بیٹھ کر عشق کی کیفیت کے ساتھ ایک نرالے انداز میں تحریر کررہا ہے، اس کتاب کے مطالعہ سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مصنف واقعی قلم کے بادشاہ تھے۔
’’النبی الخاتم‘‘ پر اکابر علماء کے تاثرات پیش ہیں:
علامہ سید سلیمان ندوی تحریر کرتے ہیں:
’’النبی الخاتم‘‘ ایک گلدستۂ عقیدت ہے، جسے مولانا مناظر احسن کے عقیدت مند قلم نے سجایا ہے، اس میں مولانا نے اپنے خاص والہانہ رنگ میں سیرت پاک کے واقعات کو ایک خاص انداز وترتیب کے ساتھ پیش کرکے نہایت لطیب نتائج پیدا کئے ہیں، اس حیثیت سے یہ اپنے طرز میں منفرد ہے کہ تاریخی واقعات کو وارفتگی بیان کے ساتھ اس طرح نبھایا ہے کہ ناقد مورخین اور ارباب وجدوحال دونوں اپنے اپنے ذوق کے مطابق لطف اٹھاسکتے ہیں، زبان صاف وسادہ، لیکن صنائع لفظی سے مالامال ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی تحریر کرتے ہیں: مولانا گیلانی کی تصانیف میں سےغالباً سب سے پہلے ’’النبی الخاتم‘‘ پڑھی ، کتاب عجیب البیلے انداز میں لکھی گئی ہے، صحف سماوی کا انداز بیان ، خطیبوں کا جوش وبرجستگی، عشاق کی مستگی اور وارفتگی، عقل وجذب کی لطیف آمیزش حسب معمول اور مشہور واقعات سے لطیف نکتے اور عظیم نتیجے نکالتے جاتے ہیں اور وہ اس سرعت وکثرت کے ساتھ کہ پڑھنے والا مصنف سے شکایت کرنے لگتا ہے کہ دامان نگہ تنگ وگل حسن توبسیار
(۳)مولانا ابوالبرکات عبدالرئوف داناپوری:
بہار کےسیرت نگاروں میں تیسرے مصنف مولانا ابوالبرکات عبدالرئوف دانا پوری ہیں۔ مولانا ابوالبرکات عبدالرئوف داناپوری ۱۸۵۶ء کے قریب داناپور محلہ شاہ ٹولی میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی مکان داناپوربھسولا ضلع پٹنہ میں تھا، بلکہ اب تک ہے۔
مولانا عبدالرئوف کی مہتم بالشان تصنیف’’ اصح السیر‘‘ ہے۔ یہ دوجلدوں میں ہے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی اور دیگر علماء نے اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے۔
اصح السیر: مولانا ابوالبرکات عبدالرئوف دانا پوری نے سیرت کے موضوع پر ایک اہم کتاب تصنیف کی ہے، جس کا نام ’’اصح السیر فی ہدیہ خیرالبشر‘‘ ہے۔ یہ کتاب ۱۳۵۱ھ مطابق ۱۹۳۲ء میں طبع ہوئی۔اس کتاب کے سلسلے میں مصنف تحریر کرتے ہیں:
’’ خداکا کس طرح شکریہ اداکروں اور اس کے انعام کا کن لفظوں میں ذکر کروں کہ آج سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک حصہ پیش کرنے کا لائق ہوا ، یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اور میری محنت کا سب سے بڑا اندوختہ ہےاور خدا وند عالم قبول فرمائے تو میری نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس تصنیف میں کتنی مدت صرف ہوئی، اس لئے کہ حدیث دوست کے سوا دنیا میں میرا مشغلہ ہی کیا تھا، نہ معلوم کتنی راتیں جاگی گئیں، کتنے دفتر چھانے گئے، کتنے اوراق الٹے گئے ،لیکن ان تمام تحقیق وتفتیش کا مطلب صرف ایک تھا کہ وہ یہی کہ حضور کی تعلیم اور طریقہ کا صحیح حال معلوم ہو۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے اس کتاب کو جمع کرنے میں نہایت ہی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ مصنف نے صحیح احادیث اور صحیح روایات کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو مرتب کیا ہے۔ اس لئے اس کتاب کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اس کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے وفات تک کے حالات جمع کئے گئے ہیں۔ مصنف کے مطابق ان میں ان ہی حالات کا ذکر ہے ،جن کا تعلق اسلام کی تبلیغ واشاعت اور اسلامی قوت کی ترقی سے ہے، جس کو حضور کی مجاہدانہ زندگی کہہ سکتے ہیں۔ حصہ دوم میں رسول اللہ ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کا ذکر ہے۔ یعنی نبوت کے دلائل، معجزات، معراج، مراتب، شمائل اور سب سے بڑی بات یہ کہ آپ نے دنیا کے سامنے کیا چیز پیش کی یعنی تعلیمات اور اصلاحات وغیرہ وہ بھی ولادت سے وفات تک پوری زندگی کے حالات کو شامل کیا گیا ہے۔
’’اصح السیر‘‘ سیرت کے موضوع پر نہایت ہی اہم تصنیف ہے، علماء اور دانشوروں نے اس کو بہت پسند کیا ہے،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب تحقیقی مواد پر مبنی ہے۔
خلاصہ یہ کہ بہار کے علمائے کرام نے سیرت کے موضوع پر اہم اہم کتابیں تصنیف کیں ۔ ان کتابوں نےمخالفین کے اعتراض کے دفاع ،نیزسیرت فہمی اور سیرت کے مطالعہ میں اہم کردار ادا کیا، ساتھ ہی قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے بھی مواد فراہم کیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی علمائے بہار کی سیرت کے موضوع پر مذکورہ بالا کتابیں نہایت ہی مقبول ہیں اور سیرت کے موضوع پر شاہکار ہیں۔
تحریر: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی
سابق پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ، پٹنہ
بہار – 800006
رابطہ نمبر: 9835059987