کاٹھمانڈو، نیپال: 7 نومبر 2024 (راست)
دین اسلام کے قلعوں: یعنی مدارس اسلامیہ کے بہی خواہوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ اتر پردیش میں اور یوگی بابا کے موجودہ راج میں پہلے مدارس کے سروے کا عمل شروع ہوا ، پھر 22/مارچ 2024ء کو الہ آباد ہائی کا غیر منصفانہ فیصلہ آیا،جس میں الہ آباد ہائی کورٹ نے مدرسہ بورڈ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے منسوخ اور مسترد کردیا تھا۔ جس پر یوپی میں خوب بھونچال مچا اور پھر اسلام دشمنی پر مبنی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں داخل کی گئیں ،جس پر گزشتہ سے پیوستہ روز 5/نومبر 2024ء کو سپریم کورٹ نے عادلانہ اور منصفانہ فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ :” الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے اور کہا کہ مذہبی کتابیں پڑھانے سے مدارس غیر آئینی نہیں ہوجاتے۔ ریاستی حکومت کو اس بات کا تو حق ہے کہ وہ مدارس کے تعلیمی معیار پر نظر رکھے ؛ مگر مدارس میں مداخلت کا ہزگز کوئی حق نہیں ہے”۔ سپریم کورٹ کے حالیہ انصاف اور حق پر مبنی فیصلہ پر سماج وادی مسلم سنگھ نیپال کے رکن اور جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے ترجمان مولانا انوارالحق قاسمی نے کہا کہ :” سپریم کورٹ کا فیصلہ نفرت کے سوداگروں اور اپنی چیرہ دستیوں کے ذریعہ سفید کو سیاہ کرنے والوں کے لیے ایک خاموش ؛مگر سخت طمانچہ ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے یہ ثابت اور واضح کردیا ہےکہ آج بھی سپریم کورٹ جانب دار نہیں ہے”۔
مولانا نے مزید یہ کہا کہ:” سپریم کورٹ کے انصاف پرور ججوں نے مدارس کے سترہ لاکھ طلباء کے دلوں میں اپنا ایک خاص مقام پیدا کرلیا ہے،اس فیصلہ سے مسلمانوں میں سپریم کورٹ کا اعتماد مزید بحال ہوا ہے۔ مولانا نے سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنی طرف سے اور جمعیت علماء روتہٹ نیپال کی طرف سے سلام بھی پیش کیا ہے”۔