آج ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزربسر رکر رہے ہیں جہاں علم کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ علم انسان کو نہ صرف ایک سمجھدار اور باشعور شخص بناتا ہے بلکہ اسے اپنے مقاصد کی تحقیق اور ترقی کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے علم کے جو جوہر حاصل کیے اور اپنے کاموں سے یہ ثابت کیا کہ علم کس طرح زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ابوالکلام آزاد جیسے ہمارے اکابر اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کس طرح علم اور شعور انسان کو صرف اپنی قوم ہی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے کچھ نیا اور بہتر کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ڈاکٹر ابوالکلام آزاد نے نہ صرف سوچا بلکہ اپنے اعمال اور کارناموں سے یہ ثابت بھی کیا کہ علم کس طرح ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی علمی وراثت کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام چھوڑا کہ علم صرف شخصیت نہیں بلکہ پوری قوم اور دنیا کو بہتر بنانے کا راستہ ہے۔ آج اگر ہم ان کے پیغام کو سمجھیں اور اپنے اعمال میں لائیں تو ہم بھی اپنی اور اپنی نسلوں کے لیے ایک بہترین مستقبل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ابوالکلام آزاد کی ابتداء زندگی
ڈاکٹر ابوالکلام آزاد، جنہیں عوام الناس پہلے وزیرِ تعلیم کے نام سے جانتی ہے، ان کا اصل نام ابوالکلام محی الدین آزاد تھا۔ آپ کی پیدائش 1888 میں ایک معزز اور مقدس جگہ مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام خیرالدین تھا اور ان کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے، جو اکبر کے دور میں ہندوستان آئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ مگر آپ کا بچپن مکہ اور مدینہ میں گزرا، اور آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ پھر آپ جامعہ الازہر یونیورسٹی جو کہ مصر میں واقع ہے، وہاں تعلیم کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ بچپن سے ہی پڑھائی میں بہت ذہین تھے اور آپ کو پڑھنے میں کافی دلچسپی بھی حاصل تھی۔ آپ کا جو گھرانہ تھا وہ کافی تعلیم یافتہ تھا۔ آپ کے والد ایک بہت بڑے شاعر اور ایک بہترین، مشہور و معروف ادیب تھے، اور آپ کی والدہ ایک بزرگ اور نیک سیرت خاتون تھیں۔
مولانا آزاد نے 1947 میں آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دی اور تعلیمی نظام کی بہتری اور ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اہم پالیسیز اور ادارے قائم کیے جن کا مقصد تعلیم کو عام اور معیاری بنانا تھا۔بعد میں مئی 1952 میں انہیں قدرتی وسائل اور سائنسی تحقیق کے محکمے کا اضافی چارج دیا گیا۔ انہوں نے ”انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز” قائم کی، جو بھارت اور مشرق کے دیگر ممالک کے درمیان ثقافتی روابط کو مستحکم کرنے اور قائم کرنے کے لیے ایک تنظیم تھی۔ اس نے مختلف اوقات میں ایشیائی مسائل کے مطالعے کو ایک نئی تحریک دی۔ حقیقت میں، پانچ شِلا – یعنی پرامن بقائے باہمی کا اصول بھی انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کونسل کی جانب سے انڈو ایشین کلچر‘‘انگریزی میں’’، ‘‘الثقافت الہند’’عربی میں، اور ‘‘انڈو ایرانیکا’’ انگریزی اور فارسی میں شائع ہونے والے اہم جریدے ہیں، جنہیں ایران سوسائٹی کے سہولت سے شائع کیا جاتا ہے۔ یہ تمام اشاعتیں بھارت اور دوسرے ممالک، خاص طور پر مشرقی وسطی اور دور مشرق کے ممالک کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ہندوستان میں علمی طریقی میں آپ کا کردار
آپ نے آزادی کے بعد ہندوستان کی ترقی کے لیے کئی عظیم کارنامے انجام دیے اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری امت کو کامیابی اور ترقی کی راہ دکھائی۔ آپ نے ہر انسان کو تعلیم کے صحیح استعمال کا طریقہ سکھایا اور اس کے لیے بے شمار اسکولز اور یونیورسٹیز قائم کیں جو آج کے دور میں سب کے لیے عبرت کا نمونہ بن چکے ہیں۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد ملک کی یونیورسٹیوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے مالی امداد اور دیگر سہولیات فراہم کرنا تھا۔ UGC آج بھی ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔آپ نے ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیا۔
ان کی کوششوں سے ہی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور، اور آئی آئی ٹی جیسے تعلیمی اداروں کا قیام ممکن ہوا۔ انہوں نے سائنس کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی طلبہ کو جدید علوم میں مہارت حاصل کرنی چاہیے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ مولانا آزاد نے ہندوستان میں بنیادی تعلیم کو ہر فرد کا حق قرار دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ہر شہری کو تعلیم میسر ہو تو ملک میں ترقی ممکن ہے۔ ان کی تجویز کردہ پالیسیز کے تحت تعلیم کو گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ تک پہنچانے کی کوششیں شروع ہوئیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔مولانا آزاد نے ثقافتی اور ادبی ترقی کے لیے ادارے قائم کیے، جیسے کہ انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز (ICCR) اور سہتیہ اکیڈمی۔ ان اداروں کا مقصد ملک کے مختلف ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانا، علمی ترقی کو فروغ دینا اور نئی نسل میں ادب اور ثقافت کا شعور بیدار کرنا تھا۔
مولانا آزاد نے 1913ء میں ‘‘الہلال اور البلاغ’’ نامی ایک اخبار شروع کیا جس نے برطانوی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کی بھرپور مذمت کی۔ اس اخبار کے ذریعے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو متحد کیا اور انہیں قومی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی۔1920ء میں جب کانگریس نے غیر تعاون تحریک شروع کی تو مولانا آزاد اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں اس تحریک کی کامیابی کے لیے وقف کر دیں۔1930ء میں جب گاندھی جی نے نمک مار(ڈانڈی مارچ )شروع کیا تو مولانا آزاد نے ان کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لوگوں کو اس تحریک میں شرکت کرنے کی ترغیب انہوں نے تعلیم کے میدان میں بہت سے اصلاحی اقدامات کیے۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا اور تعلیمی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیا۔
ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد، ملک میں تمام فرقوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد ہندوستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کئی مواقع پر ہندو مسلم بھائی چارے کو فروغ دیا اور ان دونوں قوموں کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ابوالکلام آزاد نہ صرف ایک عالم تھے بلکہ ایک عظیم رہنما بھی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی حالت میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی اور برطانوی حکومت کی تمام سازشوں کا مقابلہ کیا۔ ان کی قیادت نے ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا۔
اور آخر کار وہ نور سا منور چراغ 1958ء میں اس دنیاۂ فانی سے رخصت ہو گیا۔ ان کی وفات سے ہندوستان کو ایک عظیم مفکر، سیاستدان اور آزادی کے علمبردار سے محروم ہو گیا۔اور آج تک ویسا کوئی سیاست دان کوئی رہنما، اور کوئی وزیر تعلیم دوبارا دیکھنے کو نہی ملا۔
تحریر: محمد طارق اطہر
جامعہ دارالہدی اسلامیہ،کیرالا