مولانا ابو الکلام آزاد کا شمار ہندوستان کی ان ممتاز شخصیتوں میں ہوتاہے جن کے تذکرہ کے بغیر ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ ناقص رہے گی۔ یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ہندوستان کے سیاسی محاذ پر آنے سے پہلے ہی مولانا آزاد الہلال اور البلاغ کے ذریعہ پورے ملک میں حریت کا صور پھونک چکے تھے۔ ۱۹۲۲ء کو جس کا دعویٰ مولانا آزاد نے ایک عدالتی بیان میں کیاتھا:-
’’مہاتما گاندھی نے دلوں میں دینی روح بیدار کرنے کاجو کام شروع کیاہے ، الہلال ۱۹۱۴ء میں اس فرض سے فارغ ہوچکاہے‘‘۔
۱۹۱۶ء میں پنڈت نہرو پہلی بار لکھنؤ کانگریس اجلاس میں گاندھی جی سے ملے اور اسی سال مولانا آزاد کو ایک باغی اورانگریز دشمن کی حیثیت سے رانچی جیل میں قید کیاگیا۔
ملک کی آزادی میں مولانا آزاد کی فقید المثال قربانیاں اور غیر معمولی خدمات کوکون فراموش کرسکتاہے۔ جنگ آزادی کی خاطر انہوں نے دس برس سات مہینے ملک کی مختلف جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کیں لیکن مولانا کے پائے ثبات میں ذرا بھی جنبش نہ ہوئی۔
’’کانگریس میں مولانا آزاد کی شخصیت مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ پہلے مدبّر تھے جس کی طرف ہندوستان کی داخلی اور خارجی سیاست میں رجوع کیاجاتاتھا۔ جب تک مولانا کسی تجویز پر غور نہ کرلیتے وہ منظور نہیں کی جاتی تھی۔ ان کو مشورہ مسائل کے تمام پہلوؤں کو روشن کرنے کے لئے ضروری سمجھاجاتاتھا۔ مولانا کی رحلت کے بعد جلسہ تعزیت میں بولتے ہوئے نہرو نے کہاتھا:-
’’جب سیاسی مشکلات مجھے گھیریں گی ۔ میں مشورہ کرنے اب کس کے پاس جاؤں گا۔ مولانا آزاد کی وفات سے جو خلا پیداہواہے وہ اب دن بدن بڑھتا ہی جائے گا۔ اب کوئی شخص نظر نہیں آتا جو یہ کمی پوری کرسکے‘‘۔
لیکن آج المیہ یہ ہے کہ مولانا آزاد کو صرف ایک مسلم قائد کی حیثیت سے دیکھاجارہاہے ۔ ۱۱؍نومبر مولانا آزاد کی یوم پیدائش کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منائے جانے کا اعلان ۲۰۰۸ء میں کیاگیا ،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی اور قومی سطح پر نہ کوئی پروگرام ہوتاہے ، نہ ہی مولانا کے شایان شان ان کی یوم پیدائش اور برسی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیاجاتاہے۔ امسال ۱۱؍نومبر کو قومی یوم تعلیم منایاگیا لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ اردو اخبارات میں بھی مولانا کی شخصیت کو اس طرح نمایاں نہیں کیاگیاجو ان کا مقام تھا۔ انگریزی اخبارات نے تو مولانا کے متعلق ایک چھوٹی سی خبر بھی شائع کرنا گوارا نہ کیا۔ یہی حال الکٹرانک میڈیا کا بھی رہا۔سچی بات تو یہ ہے کہ مولانا آزاد ، مہاتما گاندھی ، پنڈت جواہر لال نہرو، سردار پٹیل ، ڈاکٹر امبیڈکروغیرہ سے کسی بھی ناحیہ سے کم نہ تھے ۔ ڈاکٹر عبد المنعم النمر مصری پہلے عربی اسکالر جنہوں نے مولانا آزاد پر پی ایچ ڈی کی ہے رقمطرازہیں:- ’’مولانا آزاد ہی تھے جنہوں نے انگریزی حکومت کے سامنے ان مباحثوں میں ہندوستان کی وکالت کا فریضہ انجام دیا جس کے نتیجے میں بالآخر ہندوستان آزاد ہوا۔ مولانا آزاد کی ماہرانہ قیادت کی کوئی دوسری مثا ل نہیں ملتی ہے۔ انہیں کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں نے تحریک آزادی کو آگے بڑھانے میں شمع راہ کا فریضہ انجام دیا۔
۱۹۲۳ء میں مولانا کو اتفاق رائے سے کانگریس کا صدر منتخب کیاگیا۔ اس وقت ملک کے سیاسی حالات بہت زیادہ ناگفتہ بہ تھے۔ ہر اعتبار سے اس عہدے کے لئے مولانا ہی موزوں تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو لکھتے ہیں:-
’’حالات میں جو تبدیلیاں ہورہی تھیں ، ان کا مقابلہ میرے بس سے باہر تھا۔ ان میں سب سے زیادہ پریشان کن بات ہندوؤں اورمسلمانوں کے تعلقات میں کشیدگی تھی جو دوسرے بہت سے فتنوں کا باعث ہورہی تھی‘‘۔
آزاد نے ان حالات میں بھی کانگریس کی ذمہ داری سنبھالی اور اس پریشان کن دور میں عوام کی قیادت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی۔ اور اِس دَور کے بارے میںمولانا آزاد لکھتے ہیں:-
’’میں قید خانے سے باہر آیا تو میںنے کانگریس کو شدید بحران میں گرفتار پایا۔ اُس کے رہنما برطانیہ کے مقابلے پر صف آرائی کے بجائے خانہ جنگی میں گرفتار تھے۔ مسٹر داس، پنڈت موتی لال نہرو اور حکیم اجمل خاں اس نئی جماعت میں شامل تھے جو مجلسِ قانون ساز میں شامل ہوکر اندر سے حکومت کے پروگرام کی مخالفت کا عزم رکھتی تھی۔ دوسری طرف راجہ جی، سردار پٹیل، ڈاکٹر راجندر پرشاد وغیرہ اپنے سابق موقف ہی پر جمے ہوئے تھے۔ ان دونوں جماعتوں نے مجھے اپنی اپنی طرف کھنچنا چاہا۔ لیکن میں نے کسی کیمپ سے وابستگی پسند نہیں کی۔ میں نے اچھی طرح محسوس کرلیاتھا کہ اندرونی کشاکش ہی خطرہ کی بنیاد ہے اور اگر فوری تدبیر نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ آگے چل کر کانگریس ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ میں نے طے کرلیا کہ میں کسی فریق کا ساتھ نہ دوں گا۔ میںنے اپنی ساری قوت اس میں لگادی کہ میں کانگریس کے تمام ارکان کو سیاسی صف آرائی کی طرف لے جاؤں۔ مجھے یہ بیان کرکے خوشی ہورہی ہے کہ میری کوشش کامیاب ہوئی۔ میں نے دہلی میںکانگریس کا خاص جلسہ بلایا۔ مجھے دونوں فریقوں نے کانگریس کا صدر چنا۔ کہاجاتاہے کہ ان تمام لوگوں میں، جواب تک کانگریس کی صدارت پر فائز ہوئے تھے، میں سب سے کم عمر تھا‘‘۔
۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ چھڑجاتی ہے۔ اس دوران حکومت برطانیہ نے ہندوستانی عوام کی جو توہین کی تھی تو تصور سے باہر ہے۔ حکومت نے ہندوستانی عوام سے پوچھے بغیر اسے جنگ میں جھونک دیا۔ اس طرح ہندوستانیوں کی جو تھوڑی بہت نام نہاد آزادی تھی اس سے وہ محروم ہوگئے۔ وہ جنگ میں کیسے حصہ لیتے وہ تو خو د ہی غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایسے سنگین حالات میں کانگریس کی قیادت مولانا آزاد کے ہاتھ آتی ہے۔ جنگ سے پہلے ڈاکٹر راجندر پرشاد کانگریس کے صدر تھے۔
مولانا آزاد اپنی کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’ہندوستان بیم ورجا کے عالم میں تھا۔ ان پیچیدہ حالات میں کانگریس کی صدارت بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کرگئی تھی۔ پچھلے سال احباب نے مجھ سے صدارت قبول کرنے کی درخواست کی تھی جسے میں نے مختلف اسباب کی بناپر رد کردیاتھا ۔ لیکن اب صورت حال پہلے سے مختلف تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی اس پیشکش کو ٹھکرادیتا تو اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا۔ میرے اور گاندھی جی کے درمیان شرکتِ جنگ کے بارے میں اختلاف تھا۔ میں دیکھ رہاتھا کہ جنگ چھڑگئی تھی او رہندوستان کے لئے جمہوری طاقتوں کی مدد کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ ہندوستان دوسری طاقتوں کی آزادی کے لئے کیسے جنگ کرسکتاتھا جب وہ خود غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہواتھا۔ اگر حکومتِ برطانیہ ہندوستان کی فوری آزادی کا اعلان کردیتی تو ہندوستان کے لئے یہ موقع پیداہوسکتاتھا کہ وہ دوسروں کی آزادی کے لئے جان ومال کی قربانی پیش کرتا۔ ان حالات میں محض اس خیال سے میں نے گاندھی جی کی صدارت کی پیشکش قبول کرلی کہ دوران جنگ خدمت کا کوئی موقع نکل آئے تو اس سے پورا فائدہ اٹھایا جائے اور میرے سامنے جو فرائض آجائیں میں انہیں پوری طرح انجام دے سکوں۔ میں اپنے حریف کے مقابلے میں زبردست اکثریت سے منتخب ہوگیا‘‘۔
’’ان پیچیدہ اور تاریک حالات میں کانگریس نے اپنے بیڑے کی ناخدائی ڈاکٹر راجند پرشاد سے لے کر (جو آزادی کے بعد صدر جمہوریہ بنے تھے) مولانا آزاد کے سپرد کردی ۔ اگر ان کے سوا کوئی اور رہنما ہوتا جو اس پرآشوب اور خطرناک دور میں قیادت کا بار اٹھاسکتا تومولانا آزاد کی طرف نظریں نہ اٹھتیں اور گاندھی جی دوبارہ ان سے صدارت قبول کرنے کی درخواست نہ کرتے جسے وہ سال بھر پہلے امن وسلامتی کے زمانہ میں ٹھکرا چکے تھے ۔ کانگریس میں ایسے رہنماؤں اور قائدوں کی کمی نہ تھی جن کی شخصیت اور عظمت کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آزاد کی عظمت ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ جنگ کے حوادث نے جو نئے حالات پیداکئے تھے ان کی تشخیص اور ان کے مقابلے میں اپنی ذات پر اعتماد، وہ جوہر تھے جنہوں نے ان کے جذبۂ حب الوطنی میں چارچاند لگادئیے ۔ مولانا نے اس پرآشوب دورمیں کانگریس کی صدارت قبول کی جسے وہ پرامن دور میں رد کرچکے تھے۔ انہوںنے سنگین ترین دور میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی اور انہیں اعتماد تھا کہ وہ یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لائق تھے۔ اس وقت ملک کو ایسے ہی مردِ کار کی ضرورت تھی جو آنے والے خطرناک دنوں میں قابلیت اور اعتماد کے ساتھ نہ صرف یہ بھاری بوجھ اٹھاسکے بلکہ وقت پڑنے پر وہ ہر قربانی کے لئے تیار ملے۔ کوئی شبہہ نہیں بڑے خطرات سے ٹکر لینے کے لئے بڑے آدمیوں ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس پرآشوب زمانہ میں گاندھی جی کا مولانا آزاد سے کانگریس کی صدارت کے لئے دوبارہ درخواست کرنا اور انتخاب میں مولانا کا بڑی اکثریت سے کامیاب ہونا، وہ حقائق ہیں، جو بلا اختلاف یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ہندوستانی قیادت میں گاندھی جی کے بعد مولانا آزاد ہی کا نمبر تھا۔ وہ زبردست عملی آدمی تھے ۔ کانگریس کو ان کی صلاحیت کی ضرورت اُس وقت ہوئی، جب کوئی دوسرا اس ذمہ داری کا اہل نظر میں نہ آیا۔ اس وقت ملک کو کسی باتدبیر مفکر اور ماہر رہنما کی ضرورت تھی جو گاندھی جی کی روحانی قیادت کے پہلو میں سیاسی قیادت کا خلا کامیابی کے ساتھ بھر سکتا۔
بعد کو پیش آنے والے حوادث نے ثابت کردیا کہ آزاد ایسے ہی مردکارتھے جس کی اُس وقت کے پرآشوب حالات میں ہندوستان کو ضرورت تھی۔ کانگریس کا صدر دستور کے مطابق صرف ایک سال کے لئے منتخب ہوتاتھا ۔ جنگ کے زمانہ میں آزاد کا انتخاب کانگریس کی صدارت کے لئے ہوا۔ دستور کے مطابق یہ صدارت سال بھر کے بعد ختم ہوجانی چاہئے تھی۔ لیکن آزاد جنگ کی پوری مدت میں کانگریس کی صدارت پر فائز رہے اور آزادی کی گفت وشنید میںکانگریس کی نمائندگی کرتے رہے، یہاں تک کہ ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوگیا۔ آزادی کے بعد بھی ۱۹۵۰ء تک وہ کانگریس کے صدر رہے۔ یہ دس سال کانگریس کی تاریخ کے خطرناک ترین سال تھے۔ آزاد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے صدر تھے اور اس کی طرف سے آزادی سے پہلے مذاکرات آزادی میں حصہ لیتے تھے۔ اُس وقت سے اب تک کانگریس ہی وہ غالب جماعت ہے جس کے سپرد برابر ملک کی قیادت رہی ہے۔اس سے بڑھ کر اور کون سے دلیل ہوسکتی ہے جو اس مردِ عظیم کی سیاسی بصیرت اور عظمت کے ثبوت میں پیش کی جائے ۔ (مولانا ابو الکلام آزاد ایک مفکر ایک رہنماص: ۵۶-۵۷)
۱۹۴۷ء کو ملک آزاد ہوا۔ مولاناآزاد کو نہروکابینہ میں وزارت تعلیم کا قلمدان سپرد کیاگیا ۔ وہ اپنی وفات ۱۹۵۸ء تک یعنی ۱۱سال ملک کے وزیر تعلیم رہے۔ مولانا کے دور وزارت میں تہذیب ، ثقافت، ادب، سائنس اور تعلیم کے میدان میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ مولانا نے تعلیم کاچہار نکاتی منصوبہ بنایاتھا:-
(۱) ناخواندگی کو دور کرنا اور ثانوی درجہ تک ہر ایک ہندوستانی کے لئے تعلیم کو عام کرنا۔
(۲) ذات پات سے قطع نظر تعلیم کے دروازہ سب کے لئے کھولاجائے۔
(۳) سہ لسانی فارمولہ ۔ یادرہے کہ اسی فارمولہ نے ہندی اور صوبائی زبانوں کو ذریعۂ تعلیم بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی کو دوسری اہم زبان کا درجہ دیاگیا۔
(۴) زمینی سطح پر ابتدائی تعلیم کو پورے ملک میں نافذ کیاجائے۔
مولانا آزاد کی دلی تمنا تھی کہ ہندوستان کا ہر شہری حقیقی انسان بن جائے اور حقیقی انسان بننے کے لئے تعلیم ناگزیر ہے ۔ اسی مقصد کے پیش نظر مولانا نے چہارنکاتی منصوبہ بنایاتھا۔
مولانا آزاد کے قائم کردہ چند تعلیمی ، سائنسی، ادبی اور تہذیبی ادارے اور تنظیموں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:-
(۱) سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن۔
(۲) سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن۔
(۳) آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس۔
(۴) میوزیم ایسوسی ایشنس آف انڈیا۔
(۵) انڈین ہسٹوریکل ریکارڈس کمیشن۔
(۶) سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف آرکیالوجی۔
(۷) آل انڈیا کانفرنس آن آرٹس۔
(۸) انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس۔
(۹) آل انڈیا کانفرنس آن لیٹرس۔
(۱۰) انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی۔
(۱۱) نیشنل آرٹ ٹریزرس فنڈ۔
(۱۲) سنٹرل روڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔
(۱۳) انڈین اکیڈمی آف ڈانس، ڈرامہ اینڈ میوزک۔
(۱۴) نیشنل لائبریری ، علی پور۔
(۱۵) آل انڈیا کونسل فار ٹیکنالوجی ایجوکیشن۔
(۱۶) سنٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، روڑکی۔
(۱۷) دی کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ۔
(۱۸) یونیورسٹی گرانٹس کمیشن۔
(۱۹) ساہتیہ اکیڈمی۔
(۲۰) للت کلا اکیڈمی۔
(۲۱) یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن۔
(۲۲) سکنڈری ایجوکیشن کمیشن۔
(۲۳) کھڑگپور انسٹی ٹیوٹ آف ہائیر ٹیکنالوجی۔
(۲۴) انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس۔
(۲۵) انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ، بنگلور۔
(۲۶) ڈلہی پالیٹیکنک۔
(۲۷) ویسٹرن ہائیر ٹیکنولوجیکل انسٹی ٹیوٹ، ممبئی۔
وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا آزاد کی بے لوث خدمت کو دیکھتے ہوئے یہ بات بجاطور پر کہی جاسکتی ہے کہ ہر اسکول ، ہر کالج، ہر یونیورسٹی اور ہر ادارہ پر مولانا آزاد کا بے شمار احسان ہے۔ چنانچہ ملک کے تمام اداروں اور تعلیمی مراکز کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ قومی یوم تعلیم کو جوش وخروش کے ساتھ منائیں اور مولانا کو سچی اور حقیقی خراجِ عقیدت پیش کریں۔
الغرض ان چند معروضات کے پیش کرنے کا راقم کا اصل مقصد یہ ہے کہ کم سے کم ہم ملک کے ان مجاہدین کو نہ بھولیں جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے اس ملک کی آبیاری کی ہے اور ملک کی خاطر اپنی جانیں گنوادی ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمارے ملک کاد ستوربھی ہمیں یہی سبق سکھاتاہے۔ قوی امید ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس طرح کی تقریبات سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور انہیں یہ بھی احساس ہوگا کہ ہمارے ملک کو آزاد کرانے میں سبھی کا حصہ ہے۔ اس طرح ملک کی مشترکہ تہذیب کو فروغ ملے گا اور ہمارے ملک کا سربھی بلند ہوگا۔
تحریر : ڈاکٹر عبیدالرحمٰن ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ