ہمارے ملک میں عہد فرنگی میں کئی(مرکزی اور مضبوط و مستحکم پانچ) تحریکیں اٹھیں ان میں دو زیادہ مقبول ہوئیں (1) تحریک دارالعلوم دیوبند (2) تحریک مسلم علی گڑھ ،اول الذکر خالص دینی اور ثانی الذکر خالص دنیوی تحریک ہے جسے ڈاکٹر فخر الاسلام الہ آبادی صاحب نے اپنی کتاب "الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی ترجیحات” میں اس طرح تعبیر کی ہے(1) دیوبند: یعنی آخرت مقصودیت کے درجہ میں ،(2) علی گڑھ: دنیا مقصودیت کے درجہ میں ۔
دونوں تحریکیں تاہنوز اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں اور اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہیں ،اسی کے ساتھ دونوں اپنے اپنے خول میں ہی نہیں ہے بلکہ دونوں دین و دنیا کے حامل ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے ، ہم یہاں ثانی الذکر کے بارے میں موجودہ دور کے عبقری شخصیت مشہور عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہم العالی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) کی کتاب "وہ جو بیچتے تھے دوائے دل” سے چند اقتباس پیش کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ تحریکِ علی گڑھ بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔
ہندوستان میں عصری تعلیم سے متعلق جو بھی تاریخ لکھی جائے گی اس میں تحریک سر سیدؒ کا نام آنا لازمی ہے اور یہ ہندوستانی مسلمانوں پر سرسیدؒکا ایک عظیم احسان ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ،حضرت مولانا رحمانی صاحب مدظلہم العالی لکھتے ہیں:
ہندوستان میں مسلمانوں کی عصری تعلیم میں حصہ داری کی جو بھی تاریخ لکھی جائے گی اور اس سلسلے میں ملت اسلامیہ کے جس محسن کا نام سب سے جلی اور روشن حرف میں لکھا جائے گا ،وہ یقیناً سرسید احمد خاں ہوگا ،جب مسلمان عصری تعلیم سے کٹے ہوئے تھے اور علم و دانش سے یہ محرومی زندگی کے مختلف شعبوں میں انہیں پسماندہ تر بناتی جا رہی تھی ،اس وقت سر سید نے علی گڑھ کے ایک قصبہ سے علم کا صور پھونکا اور یقیناً یہ ان کے خلوص کا نتیجہ تھا کہ یہ نوائے درد برصغیر کے چپہ چپہ تک پہنچ گئی ،یہ سرسید کا ایسا احسان ہے جس سے برصغیر کے مسلمان کبھی سبکبار نہیں ہوسکتے۔(ص:75)
سرسید احمد خاں جب عصری نظام تعلیم کی دعوت دی تو ان کی راہ میں بڑی رکاوٹیں آئیں ، لیکن یہ صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ اٹھے تھے اس لئے یہ رکاوٹیں گرد راہ ہوئیں اور آج ان کی تحریک ایک شجر سایہ دار ہے حضرت مولانا رحمانی مدظلہم العالی لکھتے ہیں:
سرسید احمد خاں کا سب سے بڑا کارنامہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا قیام ہے،جب مسلمان جذبات کی رو میں بہہ کر عصری تعلیم سے رشتہ توڑ چکے تھے اور برادران وطن پوری توجہ کے ساتھ اس سفر میں آگے بڑھ رہے تھے ،اس وقت سرسید احمد خاں نے انگریزی زبان اور جدید علوم کی تحصیل کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی اور اس کے لئے اسکول اور کالج کی سطح سے اپنی کوشش شروع کر کے اسے قلیل عرصہ میں یونیورسٹی کے درجہ تک پہنچایا،اپنے بعض مخصوص افکار اور انحرافات کی وجہ سے انہیں مخالفتوں کے طوفان سے گزرنا بھی پڑا،بعض دفعہ وہ تکلیف دہ حالات سے بھی دوچار ہوئے اور ملت کی خیر خواہی کے جذبہ بایک گداگر کا کشکول لے کر اپنوں اور بیگانوں کی چوکھٹ پر پہنچے اور تلخ نوائیوں کو سہا ؛لیکن حوصلہ شکن حالات ان کے عزم مصمم میں حائل نہ ہوسکے ،آج یہ تحریک ایک شجر سایہ دار بن کر پورے برصغیر پر سایہ فگن ہے۔(ص:84)
سرسید احمد خاں کی شخصیت اور ان کے اعلیٰ کردار کے بارے میں مولانا رحمانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
سرسید احمد خاں جہاں ایک اچھے ادیب ،محقق اور ایک عظیم تعلیمی تحریک کے مؤسس تھے،وہیں وہ ایک اچھے انسان ،کریم النفس اور بلند اخلاق مسلمان بھی تھے؛حالانکہ ان کا قلم بعض اوقات تیز ہوجاتا تھا ؛لیکن نجی زندگی میں بردبار اور حلیم شخص تھے ،ایک بار جب سرسید نے ملت کی تعلیم کے لئے ہاتھ پھیلایا تو ایک قدر ناشناس شخص نے ان کے ہاتھوں پر تھوک دیا؛لیکن سرسید کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں آئی اور انہوں نے اپنے ہاتھ کو اپنے چہرے پر لگالیا کہ بہرحال یہ بھی میری قوم کی طرف سے آیا ہے۔
مذہبی اعتبار سے ان کی رائے سے اختلاف کی گنجائش ہے کیونکہ انہوں نے بدیہی چیزوں میں بھی تاویل فاسدہ کی ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دین سے خارج تھے یا دین بیزار تھے حضرت مولانا رحمانی صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
مذہبی معاملات میں سرسید کے افکار عام طور پر قابل قبول نہیں ہیں ؛لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دینی جذبہ سے عاری تھے ،انہون نے یونیورسٹی میں شروع سے شعبہ دینیات قائم کیا اور اس کے لئے دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد حضرت مولانا عبد اللہ انصاریؒ کا انتخاب کیا ،وہ یونیورسٹی میں طلبہ سے نماز باجماعت کا اہتمام کراتے تھے ،وہ کہا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے داہنے ہاتھ میں قرآن ہو،بائیں ہاتھ میں سائنس اور سر پر لاالہ الااللہ کا تاج۔(حوالہ بالا)
اللہ تعالیٰ: مرحوم کی فکری خطائیں معاف فرما کر بہشت بریں بنائے اور ان کی تحریک پر زاغوں کے بجائے شاہین اسلام کو وارث بنائے ۔(آمین)
تحریر: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
moinuddinmusleh88@gmail.com