‘‘ مولانا عاقلؒ ’’ یاد آتی ہے جن کی بہت

واعظ دکن، رہبر قوم، امیر ملت حضرت مولانا حمید الدین عاقل ؔحسامی نوراللہ مرقدہ دکن کی ان ممتاز شخصیتوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی امت مسلمہ کی اصلاح وتربیت کے لئے وقف کردی تھی ، اللہ تعالیٰ نے مولانا عاقل ؒ غیر معمولی کمالات اور خوبیوں سے نوازا تھا ،اگر یہ کہا جائے کہ آپ ؒ کی ذات بے شمار اوصاف وکمالات کا مجموعہ تھی تو کوئی بلا مبالغہ نہ ہوگا ، ایک طرف آپ بے مثال مدبر ،مخلص رہبر ،بلند پایہ نعت گو شاعر ، اور عمدہ منتظم تھے تو دوسری طرف عظیم مفکر،نبض شناس مصلح ،درد مند وفکر مند قائد اور بے بدل وحق گو واعظ بھی تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کو ایک ایسا دل دیا تھا جو ہر وقت امت مسلمہ کی صلاح وفلاح کے لئے دھڑکتا رہتا تھا ،آپ ہر وقت امت ِ مسلمہ کی ہمدردی وخیر خواہی کے لئے بے چین وبے قرار رہتے تھے، آپ ؒ نے تقریباً چھ دہوں تک امت مسلمہ کی علمی وروحانی پیاس بجھاتے رہے ، آپ ؒکی دینی و علمی ،اصلاحی واخلاقی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا ، آپ اپنی علمی لیاقت ،عملی قوت ، قد آور شخصیت ، مدبرانہ سیاست، منکسر المزاجی ، حق گوئی وبے باکی کی وجہ سے عوام وخواص دونوں حلقوں میں یکساں مقبول تھے ،آپ ؒ امارت ملت اسلامیہ کے امیر،آل انڈیامسلم پر سنل لا بورڈ کی مجلس تاسیسی اور مجلس عاملہ کے رکن ،مسلم متحدہ محاذ کے بانیوں میں سے اور مسلم یونائٹیڈ فورم کے صدر اور بہت سی دینی ،ملی اور رفاہی اداروں کے سرپرست تھے،علم دین کی نشر واشاعت کی خاطر آپ نے ۱۹۷۵ میں ایک دینی ادارہ کی بنیاد رکھی ،جسے اس وقت جنوبی ہند کی عظیم دینی درسگاہ جا معہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کے نام سے جانا جاتا ہے ،دارالعلوم حیدرآباد دراصل آپ کی یاد گار، شبانہ روز محنتوں کی جیتی جاگتی نشانی اور آپ کی بے پناہ اخلاص وللہیت کی منہ بولتی تصویر ہے ، آپؒ کی شیریں زبان باطل فرقوں کیلئے تیز تلوار کا کام کرتی تھی ،آپ ؒ نے جامع مسجد دارالشفاء کے ممبر سے فرقۂ باطلہ کا جم کر مقابلہ فرمایا تھا ،آپ ؒ ہر موقع پر اس مسجد سے کھل کر عقائد اہل سنت والجماعت کی تشریح فرما یا کرتے تھے ، آپؒ نے یہی سے خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام ؓ کے مقام ومرتبے کو اس خوبصورت انداز سے بیان فرماتے تھے کہ جسے سن کر سامعین کے دل ان پاکیزہ نفوس کی محبت سے لبریز ہوجایا کرتے تھے ، خاص کر ماہِ محرم الحرام کے عشرۂ اولیٰ میں عظمت صحابہ ؓ کے نام سے مجالس منعقد کرتے تھے اور حضرات صحابہ ٔ کرام ؓ کی خوب مدح سرائی فرماتے تھے اور دسویں محرم کوشہادت سید ناحسین ؓ اور مقام اہل بیت کے عنوان پر بڑا پر مغز اور تفصیلی بیان فرماتے تھے اور فرقہ ٔ باطلہ کے گمراہ عقائد بیان کرتے ہوئے امت مسلمہ کو اس سے دور رہنے کی تلقین فرماتے تھے، امارت ِ ملت ِ اسلامیہ کے تحت جامع مسجد چوک اور میدان خلوت میں منعقد ہونے والے (شب معراج،شب برأت ،شب قدر ،یوم عاشورہ کے) جلسوں کے ذریعہ امت ِ مسلمہ میں پائے جانے والی بدعات وخرافات اور جاہلانہ رسومات کو مٹانے کی حتی المقدور کوشش فرمایا کرتے تھے ، آپ کے مواعظ حسنہ کی خوبصورت باتیں،کا نوں میں رس گھولنے والی ناصحانہ گفتگو اور دل پر نقش ہوجانے والی حکایات آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں، آپؒ کے پر اثر مواعظ سے سینکڑ وں نہیں بلکہ ہزاروں گمراہ لوگوں کو راہ حق نصیب ہوئی ،معصیتوں میں ڈوبے ہوئے ہزاروں انسانوں کو توبہ کی تو فیق ہوئی اور کفر وشرک کی تاریکی میں بھٹکے ہوئے ان گنت انسانوں کو اسلام کی روشنی اور دین حنیف کا سایہ نصیب ہوا ، آپ ؒکی شخصیت اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت رہی کہ آپ کے دست ِ حق پرست پر ایک دو ،دس بیس اور ہزار دو ہزار نہیں بلکہ تقریبا ً ۳۰ ہزار سے زائد لوگوں نے کفر وشرک سے توبہ کی اور دارین کی سعادت سے بہرور ہوئے ، جنوبی ہند کی سر زمین خصوصاً علاقہ ٔ تلنگانہ ، آندھرا ، کرناٹک اور مہاراشٹر و مرہٹواڑہ کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ ؒنے اپنا اصلاحی وتربیتی دورہ نہ فرمایاہو ، آپؒ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا دینی ،علمی ،اخلاقی واصلاحی شعبوں سے ہٹ کر اور بھی بہت سے شعبوں میں پھیلا ہوا تھا ،لیکن آپؒ نے سب سے زیادہ جس شعبہ کے ذریعہ امت ِ مسلمہ کی خدمت فرمائی بجا طور پر وہ شعبہ اصلاح معاشرہ ہے ، آپ ؒ نے وعظ ونصیحت اور دعوت وارشاد کو اوڑھنا بچھونا بلکہ اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا تھا ۔

آپ ؒ نے تقریبا چھ دہوں تک اپنے مواعظ ِ حسنہ کے ذریعہ امت مسلمہ کے قلوب کو ایمانی شعلوں سے گرمائے رکھا، آپ ؒ کے مواعظ سن کر مردہ دلوں میں ایمانی برقی کی لہر دوڑجاتی تھی اور وہ سر سبز وشاداب درخت کی طرح لہلہا اُٹھتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو وعظ ونصیحت کا عجیب نرالہ انداز عطا فرمایا تھا ، آپ کے مواعظ کو سامعین بڑی دلجمعی اور نہایت توجہ کے ساتھ سنا کرتے تھے ، آپ کے مواعظ میں اصلاحی وتربیتی پہلو زیادہ ہوا کرتا تھا ،آپ معمولی جملوں کے ذریعہ غیر معمولی باتیں بتا دیا کرتے تھے ،آپ کو یہ کمال حاصل تھا کہ چھوٹے چھوٹے عام واقعات میں عبرت و نصیحت کا پہلو نکا ل لیا کرتے تھے ،آپ کے لطائف کو سن کر مجلس وعظ زعفران زار ہوجاتی تھی بعد میں پتہ چلتا تھا کہ آپ نے اس کے ذریعہ کس خوبی کے ساتھ عبرت ونصیحت کا پیغام پیش کیا تھا ، آپ ؒ کے مواعظ میں جہاں ایک طرف نصیحت و عبرت آموز واقعات اور موضوع کی مناسبت سے عمدہ اشعار ورُباعیات ہوا کرتے تھے تو دوسری طرف نصیحت سے پُر حکایات و لطائف بھی ہوتے تھے ، لطائف وحکایات ایک طرف سامعین کو ہمہ تن گوش رکھنے کا کام کرتے تھے تو دوسری طرف اس کے ذریعہ وعظ میں بڑی حلاوت وکشش بلکہ جان پیدا ہوجاتی تھی،آپ کے بیان کردہ قصص وواقعات سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے نصیحت وعبرت حاصل کی اور اسے سن کر اپنی زندگی میں نمایاں تبدیلی پیدا کی ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کو زبان وبیان اور وعظ ونصیحت کی خوبی کے ساتھ ذہانت وحاضر جوابی کا بھی خاص ملکہ عطا فرمایا تھا اسلام دشمن لوگ ہو ں یا فتنہ پرور مخالفین ان کے اعتراضات کا آپ اس قدر خوش اسلوبی سے جواب دیتے تھے کہ مخالفین مبہوت ہوکر رہ جاتے تھے چنانچہ ایک زمانہ میں بعض سخت مزاج ہندو پنڈتوں نے قرآن کریم کی اُن آیات پر اعتراضات کئے تھے جن میں انہیں کافر کہا گیا ہے ، آپ نے بڑی جرأت وہمت اور شائستہ انداز میں انہیں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘اگر کافر کا لقب آپکو اچھا نہیں لگتا تو پھر مسلمان ہوجائیے’’،آپ ؒ میں وقت کے تقاضوں کے مطابق وعظ وبیان کرنے کا ایک خاص وصف پایا جاتاتھا ،مسلمانوں کے حساس مسائل کو بڑی بے باکی اور جرأت کے ساتھ پیش فرمایا کرتے تھے اور اس کے بیان کرنے میں کسی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی دشمن کے نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے بلکہ اظہار حق نہایت پر زور انداز میں کرتے تھے ، ۱۹۷۵ ء تا ۱۹۷۷ء ایمر جنسی کے زمانہ میں خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف بولنا بہت مشکل کام تھا،اس زمانہ میں حکومت کے خلاف لب کشائی کرنا گویاسانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے اور شیر کے منہ میں سر دینے کے مماثل تھا اس زمانہ میں آپ ؒ نے حکومت کے پالیسی کی کھل کر مخالفت کی ، آپ نے جس ہمت کے ساتھ اور جس جرأ ت کے ساتھ حکومت کی مخالفت کی ماضی قریب میں اسکی نظیر نہیں ملتی ،حکومت نے نعرہ دیا تھا ‘‘اگلا بچہ ابھی نہیں اور دو کے بعد کبھی نہیں ’’ اس کے جواب میں آپ نے نعرہ دیا تھا ‘‘ اگلا بچہ ابھی ابھی اور بارہ کے بعد کبھی کبھی ’’ یہ نعرہ کیا تھا گویا ایک برق بے اماں تھا جو حکومت پر بجلی بن کر گر پڑا جگہ جگہ آپ ؒ کے نعرہ کے چرچے ہونے لگے اور آپ کی جرأت کو سلام کیا جانے لگا ،یہ دیکھ کر حکومت چراغ پا ہوگئی اور آپ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ،آپ نے تقریبا نو ماہ سے زائد جیل میں رہ کر وہاں کی صعو بتوں کو برداشت کیا مگر اسلامی تعلیمات کے مغائر خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت سے دست برداری اختیار نہ کی ، قید وبند کے زمانہ میں اطلاع ملی کہ اہلیہ محترمہ سخت علیل ہیں ،آپ کا گھر پر رہنا ضروری ہے ،رہائی کیلئے حکومت کی تائید میں صرف دوجملے کافی ہیں مگر سلام ہو اس مرد مجاہد کے عزم وحوصلہ پر ،رخصت کے بجائے عزیمت کو اختیار کیا ،گھر کے بجائے جیل کے قیام کو ترجیح دی لیکن غیر اسلامی اقدام کی تائید کو گوارا نہ کیا ،جیل سے رہائی اور شرف سنتِ یوسفی کے بعد تو آپ کی جرأت و حوصلہ مندی میں روز بر وز اضافہ ہی ہوتا گیا ، آپ نے کئی مواقع پر ریاستی ومرکزی حکومتوں کو للکارا اور ان کی اسلام مخالف پالیسی پر کھل کر تنقید کی اور کبھی ان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعر وشاعری کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا آپ ؒ نے شعری صلاحیت کو حمد ونعت لکھنے میں ہی صرف کیا ،آپ کی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ سے عشق الٰہی اورنعتوں کے ہر ہر لفظ سے عشق ومحبت کی کرنیں پھوٹتی ہوئیں دکھائی دیتی ہیں ۔
؂ مولانا عاقل حسامی ؒ نے سلوک وتصوف کی لائین سے بھی ملت اسلامیہ کے قلوب کی خوب اصلاح فرمائی ،آپ ؒ کو اپنے والد گرامی حضرت علامہ فاضل ؒ سے اجازت وخلافت حاصل تھی ،آپؒ نے والد ماجد ؒ کے وصال کے بعد اصلاح باطن کے سلسلہ کو نہ یہ کہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید آگے بھی بڑھایا ،چنانچہ ہزاروں طالبان راہ طریقت نے آپ سے بیعت ہوکر اپنے قلوب کی اصلاح کی اور اپنی زندگی میں صالح انقلاب پیدا کیا، آپؒ مریدین ومستفیدین اور اصلاح وتربیت کے خواہش مندوں کے لئے ہر ہفتہ بعد نماز مغرب اصلاحی وتربیتی مجلس منعقد کرکے اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعہ آنے والوں کی تربیت فرماتے اور ان کے قلوب کی اصلاح فرماتے اور اس مجلس میں شیخ شہاب الدین سہر وردی ؒ کی معروف کتاب‘‘عوارف المعارف’’ کا درس دیتے تھے اور وقت کے لحاظ سے مولانا مثنویؒ کے اشعار کا ترجمہ اور تشریح بھی فرماتے تھے، آخر ی عمر میں کمزوری ونقاہت اور دیگر موانع کے باوجود اصلاحی کام کو جاری رکھا تھا ۔
یقینا مولانا عاقل حسامی ؒ کی ذاتِ گرامی امت مسلمہ بالخصوص جنوبی ہند کے مسلمانوں کے لئے عظیم نعمت تھی ، اگرچہ اس وقت آپؒ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن آپ کے قابلِ فخر وقابلِ تقلید کار نامے ہمارے سامنے ہیں جو مستقل ہم کو اپکی یاد دلاتے جارہے ہیں اور دعوت فکر وعمل دیتے جارہے ہیں اور ان شاء اللہ آنے والی نسلوں بھی یاد دلاتے رہیں گے ، بلا شبہ آپ کی زندگی خود آپ کے اس شعر کی مصداق تھی ؂ک

ام کچھ ایسے کئے جاؤ جہاں میں عاقلؔ
آپ کو یاد کرے خلقِ خدا آپ کے بعد
ٓ

تحریرْ: (مفتی) عبدالمنعم فاروقی
9849270160

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے