غزل: شبِ فراق ہے اشکوں کا تو حساب نہ پوچھ

شبِ فراق ہے اشکوں کا تو حساب نہ پوچھ
ہر اک سوال کا مجھ سے یہاں جواب نہ پوچھ

بس ایک چوک ہوئی تھی جو ماں ہوئی برہم
ہماری قبر میں کیا کیا ہوۓ عذاب نہ پوچھ

اشارہ عیب کی جانب کیا ہے بس ہم نے
ہم ان کی نظروں میں کتنے ہوۓ خراب نہ پوچھ

تمام عمر ہی اک باپ بچوں کی خاطر
وہ روز دیکھتا ہے کیسے کیسے خواب نہ پوچھ

یہ وقت پردہ نشینوں سے آج کہتا ہے
کہاں کہاں ہے محافظ ترا حجاب نہ پوچھ

بڑی خوشی ہے ضعیفی میں مجھ کو اے جاوید
دیا ہے کس نے محبت کا یہ گلاب نہ پوچھ

جاوید سلطانپوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے