جادو گری – ایک مذموم عمل

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 

ایمان کے کمزور ہونے اور اسلامی عقائد پر جمنے کا مزاج نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ اوہام کے شکار ہوجاتے ہیں، دیر تک بیمار رہ گیے تو انہیں لگتا ہے کہ میرے اوپر جنات، آسیب اور خبیث کا سایہ ہے، اسی طرح کبھی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھ پر سحر کا حملہ ہوا ہے، پیشہ ور عاملین اور تعویذ دینے والے ان کے اس وہم کو تقویت پہونچانے کے لیے ایسا کہہ بھی دیتے ہیں، دعا تعویذ سے کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں، یہ ایک الگ بات ہے،لیکن ایسا شخص نفسیاتی مریض ہوجاتا ہے، اور اگروہ مرگیا تو اس کے ورثاء یہی کہتے ہیں کہ جادو کی نظر ہو گیا، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ جادو وسحر کا وجود نہیں ہے، اس لیے کہ جادو تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گیا اور معوذتین کا شان نزول یہی بیان کیا جاتا ہے،اس لیے جادو اور جادو گری سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔

عربی میں جادو کے لیے سحر کا لفظ استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے، ایک حضرت سلیمان علیہ السلام سے جادو گری کی نفی کرنے کے لیے اور کئی بار حضرت موسیٰ اور فرعون کی جادوئی معرکہ آرائی کو بیان کرنے کے لیے، حضرت سلیمان علیہ السلام سے جادو گری کی نفی سورۃ بقرۃ آیت102میں موجود ہے، ارشاد ربانی کا ترجمہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا، لیکن شیطانوں نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔

 اس معاملہ میں بنی اسرائیل بہت آگے تھے، رشتہ، ناطہ توڑوانے، لڑائی جھگڑے کروانے اور شوہر و بیوی کے درمیان تفرقہ کے لیے وہ اس کا استعمال عموماً کیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں فرعون کی یہی رائے تھی کہ وہ جادوگر ہیں، اسی لیے اس نے جادو گروں کو جمع کیا اور ایک میدان میں ان کو کرشمہ دکھانے کے لیے متعین کیا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سانپ دوڑ رہا ہے، بچھو ڈنک مارنے کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہے، شیر دہاڑ رہا ہے، ہاتھی چیخ رہا ہے، جادو گروں نے یہ سوچا کہ ہمارے ان کرشموں کا موسیٰ علیہ السلام بھلا کس طرح مقابلہ کریں گے،حضرت موسیٰ ؑ نے بحکم خدا وندی زمین پر اپنی لاٹھی رکھ دی، جس نے سارے شعبدہ کو ہضم کر لیا، یہ دیکھ کر جادو گر ایمان لے آئے، اور فرعون کی ہاتھ پیر کٹوانے، سولی پر چڑھانے کی دھمکی بھی کام نہیں آئی، جادو گروں نے سمجھ لیا کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا عمل جادو گری نہیں، معجزات کے قبیل سے ہے اور معجزہ کا صدور انبیاء ورسل سے ہی ہوتا ہے۔

 اس فرق کو سمجھانے کے لیے اللہ رب العزت نے بائبل میں ہاروت ماروت نامی دو فرشتوں کو بھیجا، اور انہیں جاو کی حقیقت اور اس کی شناعت سے لوگوں کو با خبر کرنے کا کام سونپا، دونوں اس کام کو کرنے لگے،وہ لوگوں سے عہد وپیمان بھی لیتے کہ سحر سے پرہیز کرنا، لیکن بہت سارے لوگ اس عہد وپیمان سے دور ہو گیے اور اس فن کو مخلوق کو پریشان کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے، دونوں فرشتے آسمان پر لوٹ گیے، لیکن جن لوگوں نے اس فن کو ان سے سیکھا اور اصول وفروع کو ان سے سمجھا تھا، ان میں سے کئی اس کام کے کرنے کی وجہ سے کافر ہو گیے، حالاں کہ فرشتوں نے یہ بات اچھی طرح انہیں سمجھا دی تھی کہ ہم تمہاری آزمائش کے لیے ہی بھیجے گیے ہیں، اس لیے کفر مت کرنا، اس کے باوجود وہ لوگ آزمائش میں پورا نہیں اتر سکے۔

 سحر اور جادو ایک شیطانی عمل ہے، یہ شیطان کی قربت، کفریہ کلمات، گندے اور غلط کاموں کے ذریعہ وجود پذیر ہوتا ہے، لسان العرب میں سحر کی تعریف یہی کی گئی ہے کہ وہ ایک عمل ہے جس میں شیطانی تقرب اور اس کی مدد شامل ہوا کرتی ہے، روح المعانی میں بھی یہی لکھا ہے کہ شیطانی اور بُرے کاموں کے ارتکاب سے ہی اس کا حصول ہوتا ہے۔

 سحر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، پہلی قسم صرف تخیل اور نظر بندی ہے، مداری اور شعبدہ باز بڑی صفائی سے اس کام کو کرتے ہیں اور سامنے والا نظر بندی کا شکار ہوجاتاہے، اس قسم کے جادو میں نظر بندی اور دیکھنے والے کے تخیل کا ملا جلا اثر ہوتا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادو گروں کی رسیاں اورلاٹھیاں دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے یہ دوڑ رہی ہیں۔ (سورۃ طٰہٰ: 66) دوسری قسم میں شیطانی اثرات غالب ہوجاتے ہیں، اس کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود ہے،ا للہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کن لوگوں پر شیطان اترتے ہیں، وہ ہر بہتان باندھنے والے گناہگار پر اترتے ہیں۔ (سورۃ الشعراء221-22) یہ وہ شیطان ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا راستہ کفر کا چنا اور لوگوں کو جادو سکھانے لگے۔ (سورۃ البقرہ102)تیسری شکل جو آخری درجہ کے سحر کی ہوتی ہے اس میں جادو کے ذریعہ چیزوں کی حقیقت کو بدل دیا جاتا ہے، جاندار کو پتھر کا مجسمہ بنا دینا، اسی طرح شعبدہ بازی کے طور پر پانی پر چلنا، ہوا میں اڑنا، کسی کو قتل کر دینا، یہ سب جادو کی اس تیسری قسم کے ذریعہ ممکن ہے، یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر کام کا فاعل حقیقی اللہ رب العزت ہے اور تاثیر بھی وہی بخشتا ہے، یہ جادو گری اور شیطانی اعمال کے اثرات بھی قضائے الٰہی سے ہی پیدا ہوتے ہیں،لیکن اللہ رب العزت نے شیطان کوجو موقع قیامت تک کے لیے بخشا ہے، اس کے پیش نظر وہ سحر، جادو اور ٹوٹکے سے لوگوں کو نقصان پہونچا پاتا ہے۔

 جادو کی ہی قبیل سے علم نجوم اور کہانت ہے، ان تینوں کام کے کرنے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جادو کی تصدیق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا،اسی حکم میں ایسے منتر، ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک بھی آتے ہیں جن میں اللہ کے علاوہ کسی سے استمداد اور قرآنی آیات اور دعاء ماثورہ کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور مشرکانہ منتر کے ذریعہ جھاڑ پھونک کیا جا رہا ہو، فقہاء نے اس طرح کی بعض صورتوں کو شرک جلی اور بعض کو شرک خفی قرار دیا ہے، کئی روایتوں میں ایسے جادو گروں کو قتل کرنے کا حکم آیا ہے، حضرت علی ابن ابی طالب سے منقول ہے کہ جادو گر اور کاہن دونوں کافر ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے لکھا ہے کہ ”جس جادو میں کوئی عمل کفر اختیار کیا گیا ہو، جیسے شیطان سے استغاثہ و استمداد یا کواکب کی تاثیر کو مستقل ماننا یا سحر کو معجزہ قرار دے کر اپنی نبوت کا دعویٰ کرنا تویہ جادو باجماع امت کفر ہے اور جس جادو میں یہ افعال کفریہ نہ ہوں مگر معاصی کا ارتکاب کیا گیا ہو، وہ گناہ کبیرہ ہے۔ (معارف القرآن 179/1)

کاہن اور نجومیوں کو اسی زمرے میں رکھا گیا  ہے اس لیے کہ وہ علم غیب اور غیب کی باتوں کی خبر دینے کے دعویدار ہوتے ہیں، حالانکہ اللہ رب العزت ہی عالم الغیب ہے، طبرانی کی ایک روایت ہے کہ جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات پر یقین کرے تو اس سے توبہ  کی توفیق چالیس سال تک روک دی جاتی ہے، ابو داؤد نسائی کی روایت میں ہے کہ بد شگونی وبدفالی اور چڑیا اڑانا بت پرستی ہے، بخاری شریف کی ایک  روایت میں کاہنوں کے طریقۂ کار کی وضاحت کی گئی ہے کہ آسمانی فیصلوں کا ذکر فرشتے آسمان دنیا پر کرتے ہیں، شیطان اسے چھپ کر سنتا رہتا ہے اور کاہنوں کو بتا دیتا ہے، کاہن اس میں جھوٹی باتیں ملا کر پاس آنے والوں کو بتاتا ہے۔

قرآن واحادیث میں سحر وجادو، کہانت، علم نجوم، بدشگونی اور بدفالی سب کو ممنوعات کے ذیل میں رکھا گیا ہے، اس کا کرنے والا بعض حالتوں میں کافر اور بعض صورتوں میں مشرک ہوجاتا ہے،اس لیے ان چیزوں سے پر ہیز کرنا چاہیے، نہ کرنا چاہیے اور نہ کسی سے کروانا چاہیے، ہمارے سماج میں بد فالی اور بد شگونی عام ہے، سفر کے وقت کسی نے ٹوک دیا، رات کو کتا بھونکنے لگا، آنکھیں پھڑکنے لگیں، تو اسے سفر کے نا کام ہونے، کسی کے مرنے اور مصیبتوں کے آنے کا اشاریہ سمجھا جاتا ہے، ظاہر ہے یہ سب ایمان ویقین کی کمی کا نتیجہ ہے، ا س سے وہم پیدا ہوتا ہے، بازاروں میں بغیر پونجی کے دعا تعویذ اور گنڈوں کے کاروبار کی بڑی منڈی سجی ہوتی ہے وہاں جا کر لوگ ایمان اور مال دونوں کھو کر لوٹتے ہیں، اس لیے اپنے ایمان کی حفاظت کیجئے، ٹھگوں کے چکر میں مت آئیے اور آنے والے تمام مصائب وپریشانی کو من جانب اللہ سمجھئے،اسی سے صحت و شفایابی کی دعا مانگیے، کیوں کہ شفا دینے والی ذات اللہ رب العزت ہی کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے