راحتیں حاصل ہوں صحرا کو وہ منظر دے گئے
خارزاروں میں صفت مثلِ گلِ تر دے گئے
پتھروں کے درمیاں شیشہ گری صد آفریں
کفریت کے شہر کو ایماں کے جوہر دے گئے
جس کی تمثیلیں یہ دنیا لا نہیں سکتی کبھی
درس وہ اخلاص کا محبوب داور دے گئے
وہ ہمارے مرسل اعظم رسول پاک ہیں
پتھروں کو بھی ہنر جو مثل گوہر دے گئے
مرحبا صلی علی طرز ہدایت آپ کی
ہر اندھیری زیست کو روشن مقدر دے گئے
فعل سے جن کے چمکتی ہے یہ دنیا کی جبیں
اک درِ صفہ سے کیا کیا علم پرور دے گئے
ساری دنیا کے لئے ہی رحمت للعالمین
ہوکے امی علم و حکمت کا سمندر دے گئے
ہو گئے جاوید وہ اہل سخن میں معتبر
خون دل فکروں کو اپنی جو سخنور دے گئے
جاوید سلطانپوری