ازقلم:شہزادہ آصف بلال سنگرام پوری
پوری دنیا میں کشمیر اک ایسی جگہ ہے جس کے درد کا اندازہ لگانا بڑا مشکل امر ہے، برسوں سے یہ صوبہ دو ملک کی خانہ جنگی کے درمیان بری طرح پس رہا ہے۔ کشمیر میں ہر وقت کشت و خوں کا چار سو منظر بپا ہوتا ہے وہاں کے باشندے درد و کرب میں بلک بلک کر اس قدر آہ وفغاں کرتے ہیں کہ سننے اور دیکھنے والوں کا دل دہل جاتا ہے بے چارے اپنے ہی شہر میں غلامی کی بیڑیاں پہنے ہوئے آزادی کی لذت سے نا آشنا ہیں ظلم و ستم بشکل کرفیو اس قدر کہ ان کا ذاتی مکان بھی مثل قید خانہئ رنگون ہے۔
مظلوم و مجبور، بے بس و لاچار کچھ کر نہی سکتے مگر اپنے مالک حقیقی سے گریہ و زاری کرکے اپنے تکلیفوں کی شکایت کر سکتے ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مظلوموں کی پکار بہت جلد سنی جاتی ہے یوں ہی کشمیر کے مظلوم اور سادہ دل لوگوں نے کسی کے حق میں کوئی بد دعا نہیں کی مگر جب اپنے مالک حقیقی سے اپنے درد و کرب کا احساس اس گونگے بہرے عالم کو دلانے کی التجا کی تو ان کی نم آنکھیں درد سے پھنستی زبان دکھ سے کانپتے ہوئے ہاتھ کی دعا اس قدر رنگ لائی کہ کورونا وائرس کی شکل میں عتاب الہی پوری دنیا پر نازل ہوا اور لوگ اس سے راہ نجات گھروں میں ٹہرنا یعنی (Lock Down) کا نکالتے ہیں اور جب کچھ دن سختی کے ساتھ گھروں میں رہنا پڑتا ہے تب جاکے کشمیریوں کے درد کا احساس ذرا سا ہوتا ہے اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں جن کی زبان سے بلا قصد یہ جملہ نکل آتا تھا کہ ان کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا
ہمارے شہر کا برتاؤ ہے کچھ اس طرح آصف
کہ جس کی جان جاتی ہے تماشائی وہی بنتا