ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910
معاشرے میں کروڑوں کی لاگت سے تعمیر کشادہ مساجدتزئین وآرائش اورتمام ضروری لوازمات کے ساتھ دن بھر میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ استعمال میں نہیں آتیں ۔کیا ہی بہتر ہو کہ مساجد کو معاشرے سے اس قدر جوڑ دیا جائے ؟ کہ نہ صرف لگے بندھے پابند صلوٰۃ، گِنے چُنے افراد مسجد آئیں بلکہ اس مرکزی عمارت کا استعمال مسلمانوں کی دیگر ضروریات پوری کر نے کے لیے بھی کھلا رہے۔۔
چندسوال ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
کیا مساجد میں خواتین کا داخلہ نہیں ہونا چاہیے؟
کیا مساجد سے بچّوں کو دور رکھنے ہی میں مسجد کا تقدّس باقی رہتا ہے۔؟ نھنّھے نمازیوں کی تربیت کہاں ہوگی؟ وہ مستقبل کے نمازی کیسے بنیں گے؟ہماری ڈانٹ پھٹکار سے وہ مسجد آ نے سے ڈرنے تو نہیں لگیں گے۔؟
مسجد کے حرم کےحصہ کےعلاوہ دیگر جگہوں پر غیر مسلم آسکتے ہیں ؟
ہم مسجد کے ساتھ جڑ کر کون کون سی دینی سرگرمیوں کو انجام دے سکتے ہین؟
وہی قانون فطرت ہے جسے تقدیر کہتے ہیں
جسے قسمت سمجھتے ہیں وہ تدبیرون کا حاصل ہے
کیا یہ ممکن نہیں کہ
مسجد سے متصل نمایاں جگہ نگرانی کا آفس ہو۔
(1)مسجد کا CCTV کیمیرہ سبھی آنے جانے والوں کا نگراں ہو۔
(2)مسجد میں
مرکز عبادت حرم کا حصہ مخصوص ہو۔
(3)مرکزی انتظامیہ کمیٹی فعال اور پڑھے لکھے دین دار لوگوں کی ہو جودلچسپی اور اپنی آمادگی سے بھر پوروقت دے سکیں۔(4)مرکزتعلیم- عربی، عصری، نونہال پرائمری مشنری طرز کے اسکولس مسجد سے متصل قائم ہوں-
(5)مدرسہ ومکتب اور بالغان کی تعلیم کے لیےمردوخواتین کے الگ الگ حلقے ان کے لئے آسانی اور ان کے وقت کی سہولت سے قائم کیے جائیں ۔
(6)مرکز ی بیت المال کا قیام -(اجتماعی زکواة صدقات، قربانی کا نظم)
(7)بیوہ، یتمٰی کے لیے وظیفے،راشن اور امداد حاصل کرنے کاسینٹر مسجد ہوجائے
(8)دینی وعلمی لائبریری اور بیٹھ کر مطالعہ کرنےکا نظم-
(9)غیر مسلموں کے لیے شعبہ دعوت، (توحید، رسالت،آخرت)
قرآن پریچئہ، مسجد پریچئہ
(10)فیملی مفاہمتی سینٹرFamily* counseling centre(خانگی جھگڑوں کا نبٹارا)-
(11)دارالقضاء وتصفیہءمعاملات-
(12)فیملی کاؤنسلنگ-گھریلو تنازعات اور طلاق، خلع اورعلاحیدگی کے مسائل پر مشاورت اور فیصل کرانے کے لیے علماءاور کاؤنسلنگ کرنے والے کاؤنسلرکی کمیٹی ۔
(13)شادی کے ُلیے دیندار رشتے ڈھونڈنے کا مرکز۔عقد مسجد میں اور مختصر ولیمہ کے لیے معمولی کرایے پر مسجد سے متصل کمرہ۔تاکہ نکاح میں خرافات نہ ہو اور نکاح کم خرچ اور آسان بنے۔جہاں مساجد کی جگہ بڑی ہو وہاں ممکن ہے۔ اس سے مسجد کو یافت بھی ہوجاتی ہے۔دیولگھاٹ کی مسجد میں اس طرح کا نظم دیکھنے میں آیا ۔ایک مرتبہ مسجد میں غیر مسلموں کو بلا کر عیدملن پروگرام بھی لیا گیا، یہ اچھّی مثالیں ہیں ۔
(14)طلبہ کی راہ نمائی، کیریر کاؤنسلنگ، کوچنگ کا بندوبست ۔امتحان کی تیّاری کے لیے طلبہ کو ایک کمرہ یاگوشہ لائٹ پنکھوں کی سہولت کےساتھ مفت فراہم کیا جائے۔
(15)بلا سودی قرض سوسائٹی کا قیام -جہاں سے محلےاور اطراف کےلوگوں کو چھوٹے کاروبار کے لیے مختصر سرمایہ کی فراہمی اور قسط وار وصولی۔
(16)محلہ سطح پر(تعلیمی، اقتصادی،ضرورت مند طلبہ، بیوگان۔محتاج ومساکین) کا اپڈیٹ سروے موجود ہونا- کچھ ادارےمسجد کےامام کے recomondationپر تعلیمی وظائف جاری کرتے ہیں ۔
(17)بنیادی طبّی امدادی سینٹر-ہنگامی حالات کے لیے میڈیکل سروس۔
(18)بچّوں اور خواتین کے لیے دینی، تقریری مقابلےاور صلاحیت کے ارتقاء کے مواقع اور اسلامی تہذیب کو فروغ دیا جانا۔
(19)سیرت کے جلسےاور سلسلہ وار تقاریر،اصلاح معاشرہ کے پروگرام ۔یوم فرقان، یوم تعلیم، یوم اطفال، یوم والدین، یوم خواتین پرتقاریر اور معلومات کے جلسے بہت کم وسائل میں محلے کی سطح پر مقامی علماء واساتذہ کے تعاون سے منعقد کیے جاسکتے ہیں ۔(خواتین کی شرکت کی گنجائش رکھی جائے)
(20)حالات حاضرہ پر کلیدی خطبات اور مزاکرات- (21)خطبات جمعہ کو موثر ،حالات حاضرہ کے موافق، مدلل اور معاشرتی مسائل کے حل پر پیش کیا جانا چاہیے۔
(22)غریب، محتاجوں کے لیے ایک وقت کے کھانے کا یا ہر جمعہ لنگر کا انتظام۔روٹی بنک بھی اس کی ایک شکل ہوسکتی ہے -ممبئی میں گرانٹ روڈ پر مسجد کے زیر انتظام سال بھر سے جاری ہے۔ اس سے بھیکاریوں کی تعداد کم ہوگی۔
ایسے بہت سارے کام اگر مساجد کے زیر انتظام وانصرام انجام دیے جائیں تو مساجد کی ضروریات سے مزّین عمارات نماز کے اوقات کے علاوہ پورے احترام اور تقدّس کے ساتھ استعمال میں رہے گی ۔اپنی ضرورت سے آنے والے نماز باجماعت میں شرکت کریں گے۔جن کی جماعت چھوٹ گئی وہ نماز ادا کرسکیں گے۔بڑے شہروں میں بہت ساری خانگی، طبّی، تعلیمی، تجارتی، خریداری اورسرکاری کاموں کے لیے خواتین کو بھی آنا جانا پڑتاہے ۔مرد تو مسجد جا کر نماز پڑھ لیتے ہیں لیکن خواتین کے لیے گنجائش نہ ہونے سے وہ چاہتے ہوئے بھی نماز کی ادائیگی سے محروم رہ جاتیں ہیں ۔اگر ایک علاحدہ انتظام ان کے لیے بھی کیا جائے تو آسان، فطری دین کی برکت سے وہ بھی مستفیض ہوں گی۔جامع مسجد دہلی ، ممبئی مسافر خانہ مسجد اور بینگلورو میں اس طرح کا انتظام ہے۔
محلے کے نوجوان، ریٹائرڈ لوگ اور بچّے بھی خدمت خلق کے ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے تو ان کی تربیت بھی ہو گی اور ٹیم ورک سےان کے اوقات کی تنظیم صلاحیتوں کے ارتقاء کےساتھ ساتھ نفس کا تزکیہ بھی ہوگا ۔
ان تمام کاموں کی دیکھ ریکھ امام مسجد اور علماء مکتب، موذّن وخادم حسب صلاحیت کریں گے تو ان کی تنخواہ میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو سکے گااورمعاشرے میں ان کی حیثیت بھی مرکزی ہوگی۔ انھیں معاشی ضرورت پوری کرنے کےلیے دوسرے دھندے کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔
اور بھی بہت سی عملی صورتیں ممکن ہیں اگر کُشادہ دلی،رواداری اور احتیاط کے ساتھ ان کاموں کو انجام دیا جائے ۔ان کاموں کو مسجد کے نظام سے جوڑدینے سے معاشرے میں مساجد کو مرکز اسلامی کی حیثیت حاصل ہوگی۔ مسجد کے ذریعے کیاگیا نظم و اعلان اپنے اندر ایک شان، وقار، توجّہ اور عمل کی طرف ابُھارتا ہے۔یہ سارے کام تو ہر جگہ ممکن نہیں البتہ ان میں سے کچھ کاموں کو ترجیحی طورپر مسجد کی وسعت، عمارت ، محلّے کے لوگوں کی قوّت کار، حوصلہ اور اجتماعی منصوبے سے عملی جامہ پہنایا جاسکتاہے۔
آباد ہے ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فروس نظر میں
جنّت تیری پنہاں ہے تیرے خون جگر میں
اےپیکر گِل کوشش پیہم کی جزا دیکھ