جہیز وراثت کا بدل نہیں بلکہ ایک دھوکہ ہے!

تحریر : نازیہ اقبال فلاحی
معلمہ : معہد حفصہ للبنات زھراء باغ بسمتیہ ارریہ ، بہار

ہمارے معاشرے کی قبیح رسومات میں سے ایک رسم بیٹی کی شادی میں بھاری جہیز دینا ہے ، ہم نے اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے ، مگر اس کو لعنت کیوں کہا گیا ہے ، اور اس سے کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں ، اس پر کبھی سوچا نہیں گیا ، شادیوں میں والدین اپنی بیٹی کے سسرال میں قائم کرنے کے لیے بھاری جہیز دیتے ہیں ، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جیب سے خریدے ہوئے رشتے پائیدار نہیں ہوتے ہیں ، جہیز والدین کی جانب سے تحفہ ہوتا ہے ، جو لڑکی کے والدین اور عزیز و اقارب لڑکی کو دیتے ہیں ، اور وہ سراسر لڑکی کی ملکیت ہوتا ہے ، جہیز وراثت کا بدل ہرگز نہیں ہے ، اگر ماں باپ نے بیٹی کو جہیز دیا ہے تو بھائی یہ نہیں کہ سکتے ہیں کہ جہیز دے دیا ہے تو اب بہن وراثت سے محروم ہو گئی ہے ، یہ صرف اور صرف ایک حربہ ہے ، جو کہ بیٹیوں اور بہنوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کو جائیداد میں حصہ کی بجائے زیورات اور گھر کا سامان جہیز کی شکل میں دے کر کہا جاتا ہے کہ اب وراثت میں اس کا کوئی حق نہیں ، اب صرف بھائی حقدار ہیں ۔
جہیز کا سامان ماں باپ کی جانب سے بیٹی کے لیے تحفہ ہوتا ہے ، ہاں اگر وراثت کی تقسیم ہوتی ہے اور بیٹی کو اس کا حق دے کر کہا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو سامان لے اور چاہے تو رقم ، چند لاکھ کا سامان دے کر زیادہ رقم کی جائیداد ہڑپ کرنا ظلم ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اسے حق بخشوانا بھی کہا جاتا ہے اور بہنوں کے سامنے یہ راستہ رکھا جاتا ہے اگر آپ بھائیوں سے ملنا چاہتی ہیں تو بھائیوں کے حق میں دستبردار ہونا ہوگا ، اور بچیاں میکے کو کھونے کے ڈر سے اپنا حق چھوڑ دیتی ہے ،
اگر کوئی عورت اس ظلم کے خلاف کھڑی ہو جائے تو اسے اتنا رسوا کیا جاتا ہے کہ اس کی نسلیں تک باغی اور رشتوں کو توڑنے والی قرار دے دی جاتی ہے ،
اگر کوئی عورت زبردستی یا مرضی سے بھی دباؤ میں آکر اپنا حق وراثت چھوڑ دیتی ہے تو عدالت اسے نہیں مانتی ۔
آج کے دور میں لڑکے کے والدین بیٹی کے والدین پر دباؤ ڈال کر زیادہ رقم یا سامان وصول کرتے ہیں ، اور بیٹی کے والدین معاشرے کے دکھاوے کے لیے مہنگا سامان جہیز دیتے ہیں ، یہ غلط ہے ، اور پھر اسی سامان کی آڑ میں بہت ساری لڑائیاں جنم لیتی ہیں ، اور بہت ساری غریب بچیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کے گھر میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں ، جہیز کے بارے میں معاشرے میں بہت سارے تصورات درست کرنے کی ضرورت ہے ۔
جہیز وراثت کا بدل نہیں ، بلکہ وراثت لڑکی کی ملکیت ہے ، اس پر بھائی اور اس کے گھر والوں کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ لاکھوں کا جہیز بھی بیٹی کو حق وراثت سے محروم نہیں کر سکتا ہے ۔
ایک آدمی نماز نہیں پڑھتا ہے تو ہم اسے بے دین سمجھتے ہیں ، ایک آدمی مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ہے تو ہم اسے اللّٰہ کا نافرمان قرار دیتے ہیں ، ایک آدمی صاحب حیثیت ہونے کے باوجود حج نہیں کرتا ، ہم اسے سچا مسلمان نہیں سمجھتے ہیں ۔
لیکن ایک آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد اور مملوکہ چیزوں پر قابض رہتا ہے ، اور اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم رکھتا ہے ، اس کے باوجود ہم اسے سچا پکا مسلمان سمجھتے ہیں ۔
وراثت کی تقسیم مسلمانوں پر اسی طرح فرض ہے ، جس طرح نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کے صرف اصولی احکام قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں ، ان کی تفصیلات و جزئیات اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پیش کی ہیں ، اور وہ آحادیث مبارکہ میں مذکور ہیں ، لیکن تقسیم وراثت ایسا فرض ہے ، جس کی بیشتر تفصیلات خود اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں بیان کر دی ہیں ۔
اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ” مال وراثت چاہے جتنا زیادہ ہو ، چاہے جتنا کم ، لیکن اسے بہر حال تقسیم ہونا چاہیے ، اور اس میں جس طرح مردوں کا حصہ لگتا ہے اسی طرح عورتوں کا بھی حصہ لگنا چاہیے ” ۔ ( سورہ نساء )
احکام وراثت کی جزئیات بیان کرنے سے پہلے قرآن مجید نے تنبیہ کی کہ ” جو لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں ، حقیقت میں وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو ضرور جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا ” ۔ ( سورہ نساء )
جہیز دینے والے اور وراثت سے مستحقین کو محروم رکھنے والے دوہرے جرم کا ارتکاب کرنے والے ہیں ، ایک نا مطلوب عمل کو رواج دینے کا جرم اور دوسرے تاکیدی فرض پر عمل نہ کرنے کا جرم ۔
اس لیے مسلم سماج کی سلامتی اسی میں ہے کہ جہیز کے لین دین کی حوصلہ شکنی کی جائے اور لوگوں کو تقسیم وراثت پر آمادہ کیا جائے ۔
اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے نکاح کی پائیداری اور زوجین کی خوش بختی کو زیادہ یقینی بنایا جا سکتا ہے ، کیونکہ حق دار کو اس کے حق سے محروم کر کے کوئی خوش نہیں رہ سکتا ۔
آپ بیٹی کو وراثت کے بدلے جہیز دے کر چپ کروا دیں گے مگر اللّٰہ تعالٰی کے سامنے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا ، حق مانگنا گناہ نہیں ہے ، یہ اللّٰہ تعالٰی کے مقرر کردہ حق ہیں جن کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، جہیز کو وراثت کا بدل قرار دینا صرف ایک دھوکہ ہے جسے کوئی عدالت تسلیم نہیں کرتی ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی نا مراد ہے یہ رسم جہیز بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے