یہودی پروٹوکالز کے نفاذ میں ذرائع ابلاغ کا استعمال

تحریر:شاہ خالد مصباحی
اس ترقیاتی دور میں ذرائع ابلاغ کا  ،  غیروں کے منصوبوں کی اشاعت میں جو اہم کردار نظر آرہا ہے  وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں ہے 
       لوگوں کا برین واشنگ کرکے سارے مسائل پر نیچر کا عادی بنانا ،  مذہب سے الگ لوگوں کی سوچ وفکر کا اک نئی دنیا میں استقبال کرنا،  آپسی کدورت نفرت و عداوت ، بغض و حسد کا  بیچ ڈال کر جانوروں سے بھی گرا ہوا کام انسانی خمیر و ضمیر رکھنے والے افراد سے کرانا  
ایک ہی جماعت میں تفرقہ بازیاں ڈال کر مختلف گروہوں کی شکل میں ابھرکر اک دوسروں کی جانی دشمن بنانے کا عمل ، حتی کہ انسانی زندگی سے لے کر انسانی بستیوں پر بھی زہر افشانی جیسے ذرائع کا پیدا کرنا_   صیہونی افراد کا عملی میدان پر اتر کر ، اتنے بڑے ٹارگیٹ کا ہینڈل کرنے کی،  بازیابی کا سہرا صیہونی میڈیا ، ذرائع ابلاغ و ترسیل کے سر پر سجتا ہے۔ 
         قارئین!!!     یہ سارے پروپیگنڈے جو آئے دن رچی جارہی ہے وہ سب کی سب ہماری نظروں کے سامنے  ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی ساری  طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کر رہی ہیں
  اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں اک کامیاب پروٹوکولز  کے ساتھ تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ ’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج کے افراد تک نہ پہنچ سکے۔
قارئین
            اس طبیعتی ذہن کے افراد نے پہلے ، ذرائع ابلاغ و ترسیل ، میڈیا پر اپنا پورا قبضہ جمایا  بایں صورت کہ خوب خبر رساں ایجنسیاں قائم کیں ، جن کے بنیادی پرنمبل میں یہ رکھا کہ ہم کو دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کو اکٹھا کرنا ہے، یہاں تک کہ کوئی بھی خبر ہماری مرضی کے خلاف شائع  نہ ہو
آج جو آئے دن مسلموں کے خلاف زہر آلود باتیں ، اور ہمارے مسائل پر ٹپڑیا کرتے ہوئے افراد ٹی وی کے اسکرینوں پر بیٹھ کر ، بے جا  ڈیبیٹ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں   یہ ان کے روز اول کے مقاصد کی تعبیر ہے ۔

  قارئین
     کبھی آپ نے ان اسکرینوں پر یہودیوں کے خلاف کوئی بات چلتی ہوئی دیکھی _؟
 ان کے گرے سے گرے کارناموں  کے خلاف کسی اینکر نے آواز بلند کیا  ؟
         میری معلومات میں تو ایسا واقعہ  کبھی نہیں واقع ہوا شاید کہ آپ کی معلومات میں ہو 
اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ انہوں نے خوب ایمرجنیسیاں قائم کرکے ، اپنا اک ایسا  پلیٹ فارم بنایا کہ جس کی طرف عالم کے سارے افراد کی نگاہیں  مرکوز ہوگئیں ۔ اور لوگ کی زندگیاں ان کی محتاج بن بیٹھیں اور ان کا یہ  عمل آہستہ آہستہ ان کا عالمی طور پر حکومت کرنےکا پیدائشی خواب کی طرف کامیابی کے ساتھ چل پڑا ہے  در ایں صورت کہ  آزادی صحافت ، آزادی رائے،  آزادئ لباس جیسی   خرافاتوں کو ، لیبرٹی کا نام دے کر،  اسلامی جماعتوں میں پیدا کر کے ،  عالم اسلام کو اس خطرناک چال بھری وادیوں کی طرف ڈھکیلنا چاہا ۔۔ جیسا کہ افسوس اسلامک ممالک میں  اس کا اثر و رسوخ دیکھا بھی جارہا ہے ۔___  اور دینی تہذیب و ثقافت کو لیبرٹی کے نام پر مٹاکر پروٹوکولز کے نفاذ میں اک اچھا خاصہ تعاون بھی کر رہے ہیں  ۔  جیسا کہ دیکھا جا رہا کہ  تمام ترعرب اور اسلامی دنیا میں بیشتر اسکولوں میں پروٹوکولز کو حقائق کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ان گنت سیاسی تقریریں، اداریے حتٰی کہ بچوں کے کارٹون تک پروٹوکولز سے اخذ کئے جاتے ہیں۔
 جب کہ  2002 میں مصر کی حکومت کے زیر کنٹرول ٹیلی ویژن نے پروٹوکولز پر مبنی سلسلے وار پروگرام پیش کئے جانے کی امریکی محکمہ خارجہ نے مذمت کرکے سارے اسلامی ممالک کا ان کے منصوبے سے ہوشیار رہنے کا اک بہت بڑا درس بھی دیا تھا _ مگر افسوس ان کے بیان کا اثر سوائے  صیہونی طاقت کے بڑھوتری کے کچھ دیکھنے کا نہ ملا ۔ 
اور

انہی مسلم ممالک کے سہارے یہ باطل طاقتیں ہمیں ،اسٹار اور موڈرن جیسا زہر آلود لفظوں کا ہمارے ذہن میں بساکر فحاشییت و عروانیت کو عام کر وانے کا کام کررہے ہیں  اور جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے   کہ ہمارا پاکیزہ معاشرہ ، انسان اور انسانیت سے دم توڑا ہوا حیوانیت سے بھی گرا ہوا ، موڈرن کے نام پر ، طرز لباس، رہن سہن ، کھا نے ، پینے کی سلیبریٹی پارٹیوں کا انعقاد  اسلامی تعلیمات سے بلکل پرے ہوکر ہماری سوسائٹی کی زینت بن رہی ہے __ جو  امت کے ہر فرد کے لیےقابل شرمناک اور مستقبل میں آنے والی  نسل کے لیے خوفناک ہے 

   قارئین!!!  یاد رکھیں کہ انسانیت کے رستے سے حیوانیت و جہالت بھری رستے پر پہونچانے کا پورا  یہ عمل ، دخل ، میڈیا ذرائع ابلاغ و ترسیل  کا ہے ۔
           قارئین!!  اختصارا پروٹوکولز کے بارے میں  چند ضروری معلومات کا توشہ لیتے چلیں  واضح رہے کہ ’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسی دجالی دستاویز ہے جسے دُنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی دانائوں ( مفتنوں اور شرپسندوں)کی ایک پوری جماعت نے  صدی پہلے تحریر کیا   
         اور  یہی ’’پروٹوکولز‘‘یہودیوں کی وہ عالمی سازشوں کا نام ہے جس کی مدد سے وہ پوری دنیا میں دجالیت کوفروغ دیں گے اور  اپنی دجالی حکومت کو قائم کریں گے  اور یہودی دنیا والوں پر اپنی مزعوم قدرت اور دنیاوی نظام پر اپنی تصوراتی گرفت کے اظہار کے لئے دنیا کے ہر قوم ومذہب کے عوام کو یہ باور کرا ئیں گیں کہ ہمارا درپردہ کتنا اختیار ہے، تمہارے نظاموں پر۔ تاکہ بے دنیا کی اکثریت کے حامل بے سروسامان نا سمجھ لوگ،  انہی کو کل طاقت کا دیوتا سمجھ کران ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھیں گیں ۔  جیسے کہ آج ہی سے اس کا اثر دکھنے کو مل رہا ہے ۔ کہ صیہونی طاقتوں کے سہارے کی جانے والی امریکی حکومت اک طاقتور ملک کے لیبل سے خود کو گردنوا رہی ہے _  جس کا مستقبل میں  مثبت  نتائج کی آنے کا ثبوت بھی بایں قول  مل رہا ہے کہ   ایسے افراد کو قومی حکمرانی سونپی جائے گی جنکا ماضی کالا ہو، تاکہ وہ اپنے پوشیدہ "راز” افشاں ہونے کے خوف سے رہتی حکومت تک صیہونی ایجنڈے کی غلامی کریں۔ (دجالی پروٹوکول)
(     اور حتی کہ رات   ” دجالی پروٹوکولز”‘ کے  بارہویں باب میں  رات مطالعہ کرتے وقت اس بات کا بھی ذکر ملا کہ  میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس کے ذریعے برین واشنگ یا ذہنی دھلائی کرکے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا پلان بھی شامل ہے_ جس سے  آج کی موجودہ میڈیاتی صورت کی تصدیق بھی ہورہی ہے ۔ 
 بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودی اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ دیکھا بھی جارہا ہے  ۔
” دجالی پروٹوکولز” کے مطابق عالمی ذرائع ابلاغ سے  خاص صیہونی میڈیا سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی حالات پر اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اس کے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ 
افسوس
اس وقت عالمی میڈیا پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین واشنگ کرکے یہودی مفادات کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد، دہشت پسند اور اسلام کو ناقابلِ عمل دین باور کراتا ہے ۔ مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے کبھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے جاری کئے جاتے ہیں تو کبھی ’’مسلمانوں کی معصومیت‘‘ کے عنوان سے طنزیہ فلمیں بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے سوشل میڈیا کو بھی ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔         لیکن مشکل یہ ہے کہ مخالف اسلامی میڈیا اتنا طاقتور نہیں کہ اپنے خلاف ہونیوالے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دے سکے۔_ہمارے پاس کوئی ایسا ذرائع نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی باتیں دور دراز آباد ، دنیا کے گوشے گوشے تک  پہونچا سکیں
        بحمد اللہ ، ہمارے پاس مدارس ، مساجد اور  اس طرح کی ہر چیزیں ، جو اپنی تہذیب و ثقافت میں بسے ، جچیں ہر افراد کو وقتی طور پر ہم اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی اسی  خستہ حالت پر   قائم رہیں ، تو  اس پروٹوکولز  کا لانے والے  اس سیاہ بھرے مستقبل دور میں خود کے اندر اسلام تہذیب و ثقافت کا بچاؤ ہی بڑا مشکل امر ہوگا  چہ جائیکہ آپ اپنے اوپر غیروں کی طرف سے ٹھوکی گئی اعتراضات و الزامات کا صحیح طور پر بالکلیہ صفایا پیش کریں ۔ اس لیے ہم تمامی افراد مسلم کا یہ فریضہ ہے کہ بالخصوص علما و قائدین کا،  کہ اسرائیلی ، یہودی پلید منصوبہ سازوں کا ، اسلامک خبر رساں  ایجنسیاں کا قیام کرکے عملی صورت میں  تردید کریں
   اسی میں ہمارے لیے گوشہ عافیت اور قوم کے لیے روشن مستقبل ہے
اللہ ہمیں عملی طور پر  بیدارئ ذہن عطا فرما- آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے