ازقلم:محمد وسیم فیضی
مکرمی! اکیسویں صدی میں ذرائع ابلاغ اپنے اثرات اور طاقت کے ساتھ ایک عفریت کے طور پر نمودار ہوا ہے۔جسے فتوؤں اور تنقیدی تحریروں کے ذریعہ بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کے ذریعے اج خیر و شر دونوں کی اشاعت عالمی پیمانے پر ہو رہی ہے، اسلۓ کہ فطری طور پر ہر چیز کے استعمال میں دونوں پہلو ہوتے ہیں۔جس کا فائدہ آج ہندوستانی میڈیا اٹھا رہی ہے۔
لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ عالمی سطح پرمسلمانوں نےاس سے دودی بنا رکھی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اثرات وافادیت کا ایک بڑا میدان ان خطرناک تاجروں کے پاس پہونچ گیا، جو ذہنوں کو پرا گندہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔جس کی جیتی جاگتی مثال ہندوستانی نیوز چینلوں کا خطرناک اور ڈراؤنا چہرا ہمارے سامنے ہے۔جنہوں نے ایک ہی ایشو کو دو طرح دکھایا کسی کو چھپا کہا تو کسی پھنسا دکھایا۔
اسلامی میڈیا ہاؤس ہمارے پاس نہ ہونے کہ وجہ سے اسلام اورمسلمانوں کو چند برسوں میں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، ان کی تلافی کو دہائیاں درکار ہیں۔
اسلامی میڈیا کی تشکیل وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر نے کی مہم کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے ۔کاش ہمارے قوم کے دانشور حضرات اس بات کو سمجھتے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں تمام امت مسلمہ کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت فرماۓ۔ آمین