لاک ڈاؤن میں ائمہ کرام کی مشکلات

تحریر: غلام مصطفی نعیمی
سماج کے دیگر طبقات کی طرح علما اور ائمہ بھی لاک ڈاؤن سے شدید متاثر ہوئے ہیں. اس آفت ناگہانی کے موقع پر بہت ساری رضا کار تنظیموں نے آگے آکر متاثرین کے خورد و نوش کا انتظام کرنے میں بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کیا لیکن علما وائمہ سے زیادہ تر افراد بے خبر ہی رہے. بات محض بے خبری کی ہوتی تو شاید اتنا افسوس نہ ہوتا لیکن اس دور وبا میں ائمہ حضرات مساجد انتظامیہ کے غیر انسانی سلوک اور ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں. الہ آباد کی مسجد میں ایک مؤذن کا فاقہ کشی سے جاں بحق ہوجانا ملت اسلامیہ کے لیے انتہائی شرم ناک بات ہے. ملک کے مختلف علاقوں سے جب ایسی کئی دل دوز خبریں آئیں تو ہم نے *تحریک فروغ اسلام* کی جانب سے ضرورت مند ائمہ کرام کی امداد کے لیے ایک پیغام عام کیا جس کے بعد علما وائمہ کرام کی کالز اور میسجز نے ملت اسلامیہ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا جسے سن کر جہاں بے انتہا درد وکرب ہوتا وہیں اپنی قوم کی بے حسی اور طوطا چشمی کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے.شہر سے لیکر دیہات تک ائمہ کرام سے ہونے والی بات چیت کا تجزیہ کرنے کے بعد جن مشکلات کا اندازہ ہوا وہ درج ذیل ہیں:
1- کچھ منتظمین مساجد نے لاک ڈاؤن کے نفاذ اور حکومت کی جانب سے نمازیوں کی تحدید عائد ہوتے ہی اپنے ائمہ کرام کو ملازمت سے فارغ کردیا اور صاف کہہ دیا کہ اپنے گھر چلے جائیں ، انتظامیہ ان کا ماہانہ مشاہرہ نہیں ادا کرے گی. ایسے ائمہ کرام ایک طرف اپنے مشاہرے سے محروم ہوئے تو دوسری جانب لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر جانے سے بھی مجبور ہیں. مرے پہ سو درّے کی مصداق کھانے پینے کی ذمہ داری سے بھی انتظامیہ نے ہاتھ اٹھا لیا. 
2- بعض ٹرسٹیز نے ائمہ کو برقرار تو رکھا لیکن ان سے صاف کہہ دیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام مسجد میں نہیں آرہے ہیں ، چندہ نہ ہونے کی وجہ سے اس مدت کی تنخواہ نہیں دے پائیں گے.جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا اور لوگ آنے لگیں گے تب جاکر تنخواہ دی جائے گی.غنیمت یہ ہے کہ ان مقامات پر غیر معقول ہی سہی لیکن کھانے کا انتظام ہے. 
3- بعض ٹرسٹیز نے تنخواہ دینے سے منع تو نہیں کیا ،لیکن مکمل تنخواہ کی بجائے ضرورت بھر دے رہے ہیں حالات کے معمول پر جملہ ایام کی ادائیگی کرنے کا وعدہ کیا ہے. 
4- بعض مقامات سے ایسی اطلاعات بھی آئیں جہاں مسجد کا نظم ونسق فرد واحد کے ہاتھوں میں تھا، لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ شخص گھر بیٹھا تو انتظام بھی بیٹھ گیا. اب امام صاحبان کی ضروریات بھی اسی طرح بیٹھ گئی ہیں. 
5- بعض مقامات سے ایسی بھی خبریں آئی جہاں انتظامیہ کے پاس فنڈ تو موجود ہے مگر منتظمین اور متولیان نے اپنی انا اور تکبر کی وجہ سے تنخواہیں روک دی ہیں. حکومتی پابندی اور نمازیوں کی تحدید کی وجہ سے مخصوص نمازیوں کے آنے اور باقی کو روکنے سے متولی وذمہ داران ناراض ہوگئے جس کی وجہ سے انہوں نے کہہ دیا کہ جو نماز پڑھ رہے ہیں تنخواہ کی ادائگی بھی وہی کریں.
6-بعض مقامات پر لاک ڈاؤن کے باوجود ائمہ کو تنخواہ تو دی جارہی ہے مگر تنخواہ میں کٹوتی کردی گئی ہے. 
7- بعض مساجد ایسی ہیں جہاں اکثریت مزدور پیشہ افراد کی ہے، مسجد کے پاس فنڈ ہے نہ اہل محلہ کسی لائق!
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ائمہ کرام بھی خاموش ہیں لیکن ضروریات کا بوجھ صاف محسوس ہوتا ہے.
*متولیان سے دو باتیں:*
منتظمین مساجد ہر لمحہ یہ بات یاد رکھیں کہ خانہ خدا کی خدمت سعادت کی بات ہے. امام مسجد اس خدمت کا سب سے زیادہ حقدار ہے. ان کی اہمیت فرمان رسول سے بھی ظاہر ہے آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ(صحيح مسلم كتاب الصّلواۃ رقم الحدیث 664)
"رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے”
 اس لیے ان کی جانب سے بے توجہی کرنا انتہائی غیر اخلاقی اور بے حسی کی بات ہے. اس دور آزمائش میں ہمیں اپنے ائمہ کی پہلے سے زیادہ خدمت کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنی بے وطنی کا احساس تک نہ ہو.دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، اس وبائی آفت میں اپنے وطن اور اہل خانہ کے درمیان ہونا یک گونہ سکون کا سبب ہے لیکن زیادہ تر ائمہ جہاں وطن سے دور ہیں تو بڑی تعداد ایسے ائمہ کی بھی جن کے بال بچے بھی ان سے دور ہیں. ایسے میں ان سے سرد مہری اختیار کرنا، ملازمت سے فارغ کرنا، کھانے پینے سے بے توجہی برتنا کس قدر اذیت ناک اور غیر اخلاقی رویہ ہے.
منتظمین یہ بھی یاد رکھیں کہ وبائی بیماری کو دیکھتے ہوئے حکومت نے بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ پرائویٹ ملازمت کرنے والے افراد کو کسی بھی قیمت پر ملازمت سے نہ نکالا جائے نکالے جانے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی اور گرفتاری کا حکم دیا ہے. ائمہ مساجد کی غیرت اور اعلی ظرفی ہے کہ وہ خاموش ہیں خدا

نخواستہ پرشاسن کے کسی آدمی نے یہ خبر ڈی ایم ، ایس پی تک پہنچا دی تو خواہ مخواہ پوری کمیٹی انتظامیہ کی زد پر آجائے گی. ایسے ماحول میں جب میڈیا یہ پروپیگنڈہ پھیلانے میں مصروف ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر قانون شکنی کر رہے ہیں وہ اماموں کے بہانے یہ پروپیگنڈہ ضرور پھیلائیں گے کہ وزیر اعظم کے حکم کے باوجود متولیان مساجد اماموں کو تنخواہ نہ دے کر یا ملازمت سے ہٹا کر وزیر اعظم کی مخالفت کر رہے ہیں. اگر یہ ہوگیا تو آپ جانتے ہیں یہی خبریں بریکنگ نیوز بنیں گی اوراسی مدعے ڈبیٹ کا بازار بھی گرم ہوگا.

*ائمہ کرام سے مخلصانہ گزارش:*
منصب امامت غیرت وخودداری چاہتا ہے. کسی بھی حال میں اپنے وقار اور منصبی غیرت کو پامال نہ ہونے دیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ اپنے حقوق سے دست بردار ہوجائیں. مرکز اہل سنت بریلی شریف ودیگر معتبر اداروں سے اس بابت فتوی جاری ہوچکا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ایام کی تنخواہ ائمہ ومدرسین کا شرعی حق ہے جسے ادا کرنا منتظمین پر لازم ہے.اس لیے جن مقامات پر اس قسم کی زیادتی ہو تو ہرگز خاموش نہ رہیں.اولاً حکمت وموعظت سے منتظمین کو سمجھائیں ممکن ہے کہ سمجھ جائیں بصورت دیگر قرب و جوار کے مخلص افراد ،تنظیمی ذمہ داران اور مرکزی اداروں کو اس زیادتی کی خبر دیں تاکہ دیگر افراد منتظمہ سے باز پرس کریں اور انہیں ایسے اقدامات سے باز رکھیں. ہوسکتا ہے کہ بعض ناخدا ترس منتظمہ اس اقدام کی وجہ سے آپ کو معزول کردے لیکن آپ کی صدائے احتجاج کی وجہ سے آنے والا امام اس زیادتی سے محفوظ رہے گا. اور وہ لوگ بھی عوام اور مرکزی اداروں کی نگاہ میں آئیں گے. جس سے ان کی برطرفی اور اور اچھے لوگوں کے آنے کا راستہ کھلے گا.ائمہ حضرات بر طرفی کی صورت میں حصول رزق کے لیے قطعاً پریشان نہ ہوں ،جس رب نے:
وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ  فِی الۡاَرۡضِ  اِلَّا عَلَی اللّٰہِ  رِزۡقُہَا فرما کر روزی کی ذمہ داری اپنے ذمہ کرم پر لی ہو وہی آپ کو ہر حال میں ، ہر مقام پر رزق پہنچائے گا !!
*تحریک فروغ اسلام* نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ائمہ کرام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ان کی خدمت کا آغاز کیا ہے اب تک کئی ائمہ کرام کو اکاؤنٹ ٹرانسفر کے ذریعے ہدیہ پیش کردیا گیا ہے.اس درمیان امید سے کہیں زیادہ کالز اور میسجز آئے ہیں اپنے محدود وسائل کو دیکھتے ہوئے ہم نے درجہ بندی کی بنیاد پر امداد کا طریقہ اختیار کیا ہے جس کے تحت دو قسم کے افراد کو اولیت دی جارہی ہے:
1- جنہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے. 
2- جن کے مشاہرے دینے سے منع کردیا گیا ہے.
ویری فکیشن کے بعد مزید دیگر ائمہ کی خدمت کی جائے گی. اس کے علاوہ اسباب ووسائل کی فراہمی کی بنیاد پر مدرسین حضرات کی خدمت بھی کرنے کا ارادہ ہے.اس رفاہی مہم میں ہم ان مخلص افراد کے بھی ممنون ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کرکے اس کاز کو آگے بڑھایا،ملک کی دیگر تنظیموں اور اہل خیر سے بھی گزارش ہے کہ اس اہم موقع پر آگے آئیں اور ائمہ کی عزت نفس اور مقام کا خیال رکھتے ہوئے ان کی خدمت کریں ، یاد رکھیں کسی بھی قوم کی عزت اس کے مذہبی پیشواؤں کی عزت سے ہوتی ہے. امام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری عبادتوں کا نمائندہ ہے ان کی خدمت سعادت کی بات اور عزت ووقار کا ذریعہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے