سمجھدار ماں کا خط

ازقلم: عابدہ اے اعظمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیاری بیٹی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے اللہ کے فضل سے بخیر وعافیت ہوگی.
میں کئی دن سے بہت پریشان ہوں، کئی روز سے سوچ رہی ہوں کہ تم کو ایک تفصیلی خط لکھوں مگر کاموں کی زیادتی اور مشعولیات اس کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی.
بہر حال ابھی جب کہ رات کے دو بج رہے ہیں میں یہ خط تم کو یہ سوچ کر لکھ رہی ہوں کہ اسے غور سے پڑھنا اور لازما اس پر عمل کرنا.
بیٹی ! مجھے معلوم ہے کہ سسرال میں تمہارا دل نہیں لگتا.
تمہیں ہم لوگوں کی بہت یاد آتی ہے. جب میری شادی ہوئی تھی تو میرا بھی یہی حال تھا.
تم نے لکھا ہے کہ تمہیں یہ سوچ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ مجھے دن رات گھر کے کام دھندے میں ہلکان ہونا پڑتا ہے اور اس سے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے.
تم نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میرے پاس رہتیں تو چاروں چھوٹے بھائی بہن بھی پڑھنے میں اچھے ہوتے، تم تعلیم میں ان کی مدد کرتیں. پھر تم محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنے ابو کی بھی کچھ مدد کرتیں، جیسا پہلے کرتی تھین.
.تم یہ بھی چاہتی ہوکہ ڈاکٹریٹ کرکے کسی یونیورسٹی وغیرہ میں جاب کرو اور کسی کی دست نگر نہ رہو.
ڈاکتریت کے لیے تم پانچ سال میکے میں رہنا چاہتی ہو گرچہ تمہاری سسرال والے تمہیں اس کی اجازت دیں یا نہ دیں.
تم نے لکھا ہے کہ اگر اس معاملے پر تمہارا شوہر تمہیں طلاق دے دے تو بھی کچھ فرق نہیں پڑتا.
بیٹا میں تمہاری اس سوچ پر دس دفعہ استغفار پڑھتی ہوں، تم بھی استغفار اور توبہ کرو.

بیٹا میں تمہارے جذبات کی بہت قدر کرتی ہوں، تمہاری محبتوں کو سلام کرتی ہوں، تمہارے سکون و آرام کے لیے خدا سے دعا بھی کرتی ہوں مگر میری پیاری بیٹی!
تم میری باتیں بہت توجہ سے سنو
تمہارا اصلی گھر اب تمہاری سسرال ہے، اب وہیں تمہیں اپنا جی لگانا ہے. ساس کو اپنی ماں اور سسر کو اپنے باپ کا درجہ دینا ہے، شوہر کی خدمت کرنی ہے، اسے آرام پہنچانا ہے.
اب وہی گھر تمہارا اصلی گھر ہے. تم اپنی ساری دلچسپیاں اس گھر سے وابستہ رکھو.
مجھے معلوم ہے کہ تمہارا شوہر ایک معمولی کلرک ہے. تمہارے گھر آرام و آسائش کے بہت سے سامان نہیں ہین. تمہارا شوہر بھی تم پر بہت زیادہ توجہ نہین دے پاتا. تمہین وہاں گھومنے پھرنے اور انجوائے کرنے کے بہت مواقع نہیں ہین. تمہیں گھر کے بھی بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں.
مگر بیٹا! کس گھر میں مسائل نہیں ہوتے؟
کہاں کام دھندہ نہیں کرنا پڑتا، تم یہاں بھی تو دن رات کام کرتی تھی. بلکہ میں تو بہت سے کام تم سے اس لیے کرواتی تھی کہ تم کو کام کرنے کی عادت پڑے.
بیٹی! کہاں لڑکیوں کو کچھ خلاف معمول نہیں سننا پڑتا.؟
پانچ انگلیاں کب برابر ہوتی ہین؟
اگر سمجھدار لڑکیاں ان مسائل کو حکمت اور تدبیر سے حل نہ کریں تو ناجانے کتنے گھر برباد ہوجائیں.
تم بھی تھوڑی سمجھداری، حکمت اور صبر و برداشت سے کام لو ان شاء اللہ وہی گھر رفتہ رفتہ تمہارے لیے جنت بن جاے گا.
تم بچپن سے ہی کچھ ضدی اور بات بنانے والی ہو، چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی تمہیں بہت پریشان کرتی ہیں. بیٹا یہ عادتیں تمہاری زندگی کو جہنم بنا دیں گی.
شائد تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہوگی کہ ہمارے پڑوس میں نعیم صاحب کی بیٹی مرجینہ کو سسرال میں کچھ پریشانی اور تکلیف ہوئی تو اس کی امی بدھن بوا نے اس کے سسرال والوں سے لڑ جھگڑ کر طلاق لے لی اور اب مرجینہ بہت آرام سے اپنے ابو امی کے گھر آرام کر رہی ہے.
بیٹا مرجینہ کا معاملہ الگ ہے، اس پر خود کو قیاس نہ کرو، مرجینہ کی ماں بدھن ایک کم ظرف عورت ہے. اس نے خود بھی یہی کیا تھا، اس نے اپنے پہلے شوہر سے بہت معمولی بات پر لڑ جھگڑ کر طلاق لی تھی. وہ تو خیریت ہوئی کہ پندرہ سال بعد اس کی شادی محلے کے مکابر صاحب سے ہوگئی جن کی بیوی سات بچوں کو چھوڑ کر دنیا سے چلی گئی تھی. بدھن نے نا چاہتے ہوے بھی مکابر صاحب کے بچوں کی پرورش کی. مرجینہ بدھن کی حقیقی بیٹی نہیں ہے اس لیے جب وہ سسرال سے آکر میکے میں بیٹھ گئی تو مرجینہ نے اسے سمجھانے بجھانے کی کوئی کوشش نہ کی. کہنے لگی اسے سسرال میں اچھا نہیں لگتا تو میں کیا کروں؟
میں اس کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتی.؟
میں کچھ کہوں گی یا زبردستی کروں گی تو لوگ کہیں گے حقیقی ماں نہیں ہے اس لیے ایسا کر رہی ہے. حقیقت یہ ہے کہ بدھن تو ایک طرح سے خوش تھی،اس نے مرجینہ کو بہت چالاکی سے اس کام کے لیے اکسایا،
ہر معاملے میں اسے بھڑکایا. بات بنانے کے بجاے بہت حکمت سے اسے بگاڑنے کی کوشش کی. چھوٹے چھوٹے مسائل کو پہاڑ بنایا. اسے بیٹھے بیٹھاے گھر کے کام دھندے کے لیے ایک نوکرانی مل گئی. اب مرجینہ سے کوئی پوچھے کہ اس کی کیا زندگی ہے.؟
اسے دس سال بعد اب اپنے کیے پر کیسا کیسا پچھتاوا ہورہا ہے. مگر اب وہ کچھ نہین کرسکتی. سب تو اس کا اپنا کیا دھرا ہے.

بیٹا میں تمہیں ہرگز مشورہ نہ دوں گی کہ تم سسرال سے میکے آجاو، اگر تمہیں کوئی پریشانی ہے تو میں اس پریشانی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گی. مگر میں ہرگز نہیں چاہوں گی کہ تمہارا گھر برباد ہو.
تم نے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں ابو سے مشورہ کروں.
بیٹا! میں ابو سے ہرگز مشورہ نہ کروں گی، مجھے معلوم ہے کہ تمہارے ابو اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں کہیں گے مگر میں خود تمہارا اچھا برا سمجھتی ہوں.
تمہارا میکہ آکر رہنا بالکل مناسب نہیں ہے، میں تمہیں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گی. ہاں میں تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گی. تمہارے شوہر چراغ علی کو بھی سمجھاوں گی، تمہاری سسرال والوں سے بھی بات کروں گی.
مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ تمہارا اور بھی زیادہ خیال کریں گے.
میں تمہاری کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے دعا گو ہوں

والسلام

تمہاری ماں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے