تحریر: محمد قاسم ٹانڈوی
عالمگیر پیمانے پر پھیلنے والی "کورونا وائرس” نامی وبا کی مارا ماری ابھی بھی شباب پر ہے، جن ممالک اور خطوں کو اس جان لیوا بیماری نے بری طرح متآثر کیا ہے، بقول ماہرین صحت و سماج؛ وہاں کے حالات کنٹرول میں تو بتائے جا رہے ہیں، لیکن راحت بھری ایسی کوئی خبر کہیں سے موصول نہیں ہو رہی ہے جس میں برملا اس بات کا انکشاف کیا گیا ہو کہ ہم نے اس بیماری پر قابو پانے یا اس کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے؛ ایسا ابھی تک ‘چائینہ’ سمیت جو کہ اس بیماری کے پھیل پھیلاؤ کا موجد بھی ہے اور مجرم بھی، فی الحال کسی ملک سے سننے کو نہیں مل رہا ہے۔ (باقی سب اللہ کے حوالے ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے یا دنیا والے ابھی کتنی مدت اس کو اور برداشت کر پریشانی اٹھائیں گے؟ وہی بہتر جاننے والا ہے)
ہمارے سینے چونکہ توحید و رسالت کی کرنوں سے منور اور حلاوت ایمانی کی دولت بےبہا سے معمور ہیں، اس لئے مؤمن کامل کی یہ ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ وہ ہرکام اور معاملے میں مشیت الہی کا خود کو پابند بنائے رکھنے کی فکر و سعی میں لگا رہے اور اس بات کو زبان زد عام کرے کہ تمام معاملات کی اصل جڑ اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے (جو بھی اس میں خیر و شر کا پہلو ہوتا ہے ) اسے وہی بہتر جانتا ہے، اور پھر وہ جیسے چاہتا ہے حالات و معاملات میں الٹ پھیر کر مخلوق کو غور و تدبر کرنے کا موقع، حقیقی اسباب اختیار کرنے کی تاکید و تعلیم اور خود اپنی ذات کو اصل مسبب الاسباب کی حیثیت سے جاننے سمجھنے کے بہانے عطا کرتا ہے۔
عالمی سطح پر پھیلنے والی اس وبائے عظیم نے جہاں بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھا کر دنیا داروں کی حقیقت کو واشگاف کیا ہے وہیں ہم اہلِ ایمان سمیت پوری دنیا کو خدائے ذی الجلال کی طاقت کے آگے اپنی بےبسی، لاچاری اور مجبوری کا اقرار و اظہار کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ اس لئے کہ دنیا نے تعلیم و ترقی کے میدان میں آگے بڑھ کر جب سائنس و ٹیکنولوجی ہی کو اپنی لیاقت و صلاحیت کا قبلہ قرار دے دیا اور ایک معبود حقیقی کو فراموش کر بےشمار و بےحساب معبودان باطلہ کے آگے سرنگوں کرنا شروع کر دیا تو اس اعلیٰ درجہ کی خیانت و ناانصافی کا احساس دلانے کےلئے موجودہ پُرآشوب و پُرخطر حالات میں انسانیت کو گھیر کر اپنی خدائی کا جلوہ دکھانا شاید ضروری ہو گیا تھا تاکہ وہ انسانی دل و دماغ جو طاقت و اقتدار کے نشہ میں پتھرا کر چاند ستاروں پر کمند ڈالنے لگے تھے اور وہ اذہان و خیال جن میں ایک طرح سے وہن اور وہم جگہ کر گئے تھے؛ انہیں اس بات کا احساس کرایا جا سکے کہ:
"لوگو ! تم ابھی بھی اسی راہ کے مسافر ہو جو راہ ہماری طرف آنے کی نشاندہی کراتی ہے اور ترقی کی اسی منزل پر ٹہھرے ہوئے ہو جہاں ایک معمولی کیڑے اور جرثومے کا پتہ بھی نہیں لگا سکتے”؟
معلوم ہوا کہ گردش زمانہ اور حالات کا الٹ پھیر اس بات کو ثابت کرنے کےلئے وقوع پذیر ہوتے ہیں تاکہ انسانوں کو ہر وقت اور ہر موقع پر اسی کی خدائی کا احساس دامنگیر رہے اور اسی کے حکم و منشا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تمام تر سرگرمیاں انجام دی جائیں۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ہم نے ‘کورونا وائرس’ بیماری کی تباہ کاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک تو اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر میں جو سب سے اہم اور کارگر تدبیر ثابت ہو رہی ہے یعنی ‘لاک ڈاؤن’ اسے ذاتی طور پر کامیاب بنانے اور طویل بندشی زندگی سے فائدہ اٹھانے کےلئے جدید انداز میں "واٹس اپ اسٹیٹس” پر آیات قرآنی کے مفہوم کو عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو بےانتہا مفید بھی ثابت ہوا اور پسند بھی کیا گیا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ آسان انداز و بیان میں قرآنی تعلیمات کو عام کیا جائے اور مصیبت و پریشانی کے عالم میں لوگوں کی توجہ ذات باری تعالی کی طرف پھیر کر مکمل رجوع اور توبہ استغفار کی عادت بنائی جائے، اپنے آپ کو اسی کے حوالے کیا جائے، اور اس کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنا اور زندگی کے ہرموڑ پر تعلیمات اسلام کی پیروی اور پاسداری کرنا، اور ان تمام اصول و ضوابط کو اپنانا جو ہمارے دین میں ‘جزلاینفک’ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی طرف عملی طور پر توجہ دلانا مقصود تھا۔ اسی لئے آیات قرآنی پر مشتمل اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی کوشش ہے۔
چنانچہ ہفتے کے پہلے اسٹیٹس میں ہم نے امت کے قرآن حکیم سے کمزور ہوتے رشتے کو اور مسلسل قرآن مجید سے دوری اختیار کرنے کو اپنی گفتگو کا مرکز بنایا اور اس دوری و کمزوری کی بابت یاد دہانی کرائی کہ کل پیغمبرؑ بارگاہ خداوندی میں ہماری اس کوتاہی اور لاپرواہی کا اس انداز میں شکوہ کر ہمیں مجرم ٹہرائیں گے؛ چنانچہ پیغمبرؑ فرمائیں گے: ﴿اَلْقُرْآنَ مَہْجُوَراً﴾
پیغمبرِ وقت کے رہتے ہوئے جب قوم نے ضد و ہٹ دھرمی اور بغض و عناد میں ڈوب کر قرآن جیسی قابل قدر عظیم الشان کتاب ہدایت کو بالکل متروک و مہجور کر دیا اور پیغمبر کی نصیحت پر کان نہ دھرا؛ تب پیغمبرِ برحق نے بارگاہالہی میں شکایت کی کہ:
خداوندا
! میری قوم نہیں سنتی۔
حالاتِ بد یا عذابِ الہی یوں ہی نہیں آتے بلکہ جب جب قوموں نے نبیؑ اور وارثانِ نبی (علماء ربانین و مجتہدین راسخین) کی طرف سے کی جانے والی ہدایات و نصائح کو نظر انداز کیا اور ان کی باتوں کا مذاق بنایا تب تب اللہ نے انہیں کھدیڑا اور حالات سے دوچار کیا ہے۔ اس لئے خدارا خود بھی اور دوسروں کو بھی حق اور سیدھے راستے پر چلنے کی تاکید و تلقین کریں اور قرآن سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں۔
ہفتے کا دوسرا اسٹیٹس خدا کے مشروط فیصلوں اور انسانی ضرورتوں کی تکمیل پر مبنی تھا:
﴿لَاتَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ﴾
یاد رکھئے! کچھ فیصلے اللہ کے مشروط ہوتے ہیں جب تک لوگ ان کی شرائط کو پورا کرنے والے نہ بن جائیں اس وقت تک اللہ کی مدد شاملِ حال نہیں ہو سکتی۔ ہاں شرائط پوری ہو جائیں تو پھر اللہ بھی لوگوں کی مالی و بدنی قوت و کثرت میں اضافہ فرماتا ہے، اولاد میں برکت دیتا ہے ہر طرح کی خوشحالی و ترقی سے نوازتا ہے۔
موجودہ حالات میں تبدیلی کے واسطے ہم لوگ خدا تعالی کی طرف رجوع ہوں (گناہوں سے توبہ کریں) ہر کام میں اسی کی اطاعت و فرماں برداری کریں اور جن احکامات کا مکلف بنایا گیا ہے، ان کی تکمیل اور پابندی کریں اور ان سے روگردانی یا پیٹھ نہ پھیریں؛ جیسا کہ (اکثر) مجرم (نافرمان) کرتے ہیں۔
تیسرا اسٹیٹس؛ جس میں ہروقت خوف خدا سے ڈر کر رہنے کا ذکر تھا: ﴿یَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ﴾
یہ روئے زمین جس کو اللہ پاک نے ہرقسم کے فوائد و ذخائر سے مالامال فرمایاہے، کہ لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں اور آسائشِ زندگی کا سامان مہیا کر اپنے رب کی تحمید و تقدیس بیان کریں؛ اس لئے کہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ نے اس پیغام کو پہنچانے اور صاف صاف انداز میں ڈرانے کےلئے ہر قوم اور ہرعلاقے و خطے میں حضرات انبیاءؑ کو اپنا قائم مقام اور خلیفہ بنا کر بھیجا، ان سب نے منصبِ نبوت و عہدۂِ رسالت پر فائز رہتے ہوئے اس طرح لوگوں سے اپنی فکر کرنے کو کہا کہ:
"اگر ایسی صاف اور کھری باتیں سن کر بھی نہ مانوگے تو ہمارا کچھ نقصان نہیں” ہم تبلیغ کر چکے! یعنی ہر انسان کو اس بات کی کوشش اور فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پیغامِ خداوندی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہر کام میں اللہ سے ڈرے اور شریعت کی مکمل پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے اسباب تلاش کرتا رہے۔
چوتھا اسٹیٹس ﴿لَاتَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًا﴾ تھا، اس میں کہا گیا کہ پیغمبرِ مُرسلؑ کی زبانی جب احکام شریعت سنا دئے گئے تو اب ان کو مان کر ان کی پیروی کرنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہو گیا۔ اب اگر کوئی ذاتی دشمنی یا تعصب و عِناد میں ڈوب کر ان احکام الہی کو نہ مانےگا تو اللہ پاک ایسے نافرمان بندوں پر اپنا عذاب نازل فرمائےگا اور ان کو ہلاک کر ڈالےگا، ان کو ہلاک کرنے کے بعد اللہ اپنی اس زمین اور اس کے چھپے خزانوں کا مالک و وارِث دوسروں لوگوں کو بنا کر تمہارا قِصّہ ختم فرما دےگا، نیز آگے فرمایا گیا:
"اس وقت تم اللہ، اس کے رسولؑ اور اس کے ملک کا کچھ بِگاڑ نہ سکوگے”۔
یہ آیاتِ قرآنی کے جملے فقروں کا وہ خلاصہ اور بیانیہ ہے جس کی روشنی میں اگر ہم اپنی زندگی کا کھنگالے اور حقیقی معنوں میں تلاش کریں تو بہت آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ سرکاری غیر سرکاری، اجتماعی اور انفرادی سطح پر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی حالات میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہو رہی ہے، اور دنیا کی مجموعی کیفیت کم و بیش جوں کی توں برقرار ہے تو ضرور اس میں ہماری کوتاہیوں کا عمل دخل ہے۔ اس لئے حالات کی تبدیلی کےلئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے خالق و مالک سے قریب تر ہوں اور اس کی نازل کردہ کتابِ ہدایت سے اپنا رشتہ و استوار کریں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔
(جاری)