مقصد زکات اور آج کا مسلمان

تحریر: شاہ خالد مصباحی
روئےزمین پر اگر آپ اصول حیات کی رو سے جملہ مذاہب کا تجزیہ کریں تو فرد واحد ہی ایسا کوئی مذہب ملے گا جس نے مہد سے لے کر لحد تک کے انسانی ضرورتوں کا خیال کرکے سارے مسائل کو واضح کر دیا ہو۔
زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ کھڑے ہوکر اپنی ضرورتوں کومحسوس کریں تو دین اسلام پہلے ہی اس کی حقیقتوں کو پیش عوام کرکے انتھائی اچھوتے انداز میں رہبری و رہنمائی بھی کردی ہے جس سے ہماری زندگی کے راستے آسان سے آسان تر ہو جاتے ہیں۔
زندگی جینے اور گزارنے کا اک اچھا اصول اور پمفلیٹ عطا کیا اگر حقیقی معنوں میں آپ اس راستے کے راہ گیر بن جائے  تو  فرحت و انبساط آرام و راحت  ہی آپ کے دامن گیر ہوگی  
اور یہ دنیا کا واحد راستہ ہے جس نے اپنے راہ گیر کو تکلیف و مصیبت سے  کوسوں دور رکھ کر  خوشیاں اور شادمانیاں تقدیر انسانی میں ودیعت کر رکھی ہے۔
جو اک لازوال نعمت ہے  دین اسلام کے پیروکاروں کے لیے
 قارئین!! اس تناظر میں  آپ زکات ہی کو لیں جو یہ دین کا تیسرا بنیادی رکن ہے اور آپ خود غور کریں!!  سماجی تقاضوں کے وسائل اس سے کس قدر مربوط ہیں___ افلاس و غربت بھوک مری بے روزگاری جیسے انسانی مسائل پر کیسی کیسی انوکھی بات کا ریسمبل پیش کر کے وسائل زیست پر باتیں کی گئیں ہیں _ 
 یہ بات واضح ہے ،  اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ زکات اسلام کے اہم اقتصادی ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے بڑی آمدنی کا ذریعہ اور اہم وسائل میں سے ہے_ اگر حقیقی معنوں میں اس پر عمل در آمد ہو تو سماج میں نہ کوئی غریب رہ سکتا ہے اور نہ کوئی بھوکا مر سکتا ہے ____
 کیوں کہ اس  کا مقصد سماجی مساوات وبرابری قائم کرکے معاشرتی اتحاد ویکجہتی بر قرار رکھنا اور سوسائٹی کے افرادکے درمیان جبری تعاون کو نافذ کرکے غربت و افلاس سے پاک اک اچھا پاکیزہ معاشرے کو تشکیل دینا ہے _ 
اور یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت وعنایت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ساری حکمتوں ومصلحتوں کے پیش نظر مشروع کیا ہے، اس کے مقاصد بڑے اونچے ، مصلحتیں بے شمار اور فوائد ہمہ جہت ولا محدود ہیں۔ جس کا صحیح علم تو اللہ ہی کو ہے مگر ان میں سے چند کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت قرآنی میں اشارہ کیا ہے: جیسے 
     آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے کر پاک کریں ان کواور بابرکت بنا دیں ان کو اسکے ذریعے اور دعائے رحمت کریں ان کے حق میں، بیشک آپ کی دعائے رحمت ان کے لئے سکون (و اطمینان)کا باعث ہے، اور اللہ سنتا ہے (ہر کسی کی)جانتا ہے(سب کچھ)‘‘ (التوبہ103)
اس کی مشروعیت کی حکمتوں ومصلحتوں میں سے بعض کا خلاصہ اس طرح بھی کیا جاتا ہے: کہ جہاں زکوۃ مالداروں، امیروں اور صاحب ثروت کے نفوس کو بخل ولالچ اور حرص وطمع کی گندگی سے پاک کرتا ، ان کے دلوں کو انانیت، حد سے زیادہ مال کی چاہت اور مال پر ٹوٹے پڑنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کے جذبے سے صاف کرتا، مال ودولت کے حصول میں بے لگامی، خود غرضی اور بد ترین قسم کی لالچ سے دھوتا ہے۔
  وہیں پر  زکوۃ مالداروں کو گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوں اور معصیتوں سے پاک کرتا اور ان برائیوں ومعصیتوں کا کفارہ بنتا ہے، جس کا ان سے ارتکاب ہوتارہا ہے  حتی کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ایک اچھی بات ہے، اور اگر تم ان کو پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو، تو یہ تمہارے لئے اور بھی زیادہ اچھا ہے، اور (اس طرح ان صدقات و خیرات کی بنا پر)اللہ مٹا دے گا تم سے تمہارے کچھ گناہ، اور اللہ پوری طرح باخبر ہے تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو۔ البقرہ271
    قارئین!! اسی آیت کے آخری پہلو کو لے کر آج کے معاشرے میں چلتی  چلاتی باتیں جو  رواج کی شکل میں رفتہ رفتہ نمو ہو رہی ہے 
ضرور اس کے بارے میں ہمیں انسانی اخلاق  و بشری صفات کا لحاظ کرنا ہوگا 
تاکہ کہی ایسا نہ ہو کہ ضرورت مند اپنی حجاب حساسی کے پس پرد اپنی جان گوا بیٹھے اور آپ زکات کی رقم لیتے ، پھرتے اور پوچھتے ہی رہیں _ کہ یہ "زکات کی رقم ہے آپ کو اگر لینا ہے تو لے لیجیے” 
یقینا اک سفید پوشاک انسان کا حواس کبھی بھی اجازت نہیں دے گا اگر چہ وہ کتنا بھی مصیبتوں و پریشانیوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہو۔ 
آپ  صدقات و زکات کی رقم کو محتاجوں و ضرورت مند انسانوں پر خاموشی سے اور پوشیدگی طور پر  خرچ کریں_____ تاکہ اس کا بھی حواس با حیات رہے اور آپ کا اخلاق و ہمدردی بھی بشری ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ  صحیح سمت لیتا رہے____ اور اسی میں  انتہائی خلوص اور سچے جذبے کی جھلک بھی ملتی ہے _ کیوں کہ میرا رب وہ دلوں کے اندر کا بھی علم رکھتا  ہے۔
برسر عام آپ کا اک روٹی لے کر دوسرے کے جذبات کے ساتھ کھ

یلنا ، سیلفی فوٹو نکال کر آباد فیملی کو برباد کرنا حقیقی صورتوں میں آپ نے مصیبت کی گھڑی میں ان کو زندگی نہیں بخشی ہے بلکہ موت کے گھاٹ پر لے جاکر ان کے حواس کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔  کئی  ایسے واقعات آئے دن سامنے آ بھی رہے ہیں جب ہمارے امداد کے ساتھ ضرورت مند باحواس انسانوں کی تصویریں شوشل  پر وائرل ہوتی ہیں  تو انسان کا خمیر پزمردہ ہو جاتا ہے__ جہاں پہنچ کر انسانیت دم توڑ دیتی ہے پھر سوائے موت کے کوئی  اور راستہ دکھتا نہیں ہے۔

اس لیے  خدا را فردان امت کے ساتھ یوں کھیل نہ کھیلو کہ انسانی زبوں حالی کا چیورہ پن موجود تو رہے ہی اور قوم کا کوئی روشن مستقبل  بھی نظر نہ آئے
لیکن ہمیں کیا ملا؟؟   ہم نے ان انمول اصولوں و ضوابط کا کتنا فائدہ اٹھایا؟؟   ہم اس پر کتنا عمل پیرا رہے؟؟  ان ساری کی ساری باتوں کی حقیقت آپ کے سامنے بالکلیہ عیاں ہے۔
اور اٹھاو غربت کا رجسٹر اور دوسرے قوموں سےاپنی قوم کا  تخمینہ کریں تو آج بھی غربت ، اور منگنے والوں کی تعداد کثیر ، اسی جماعت کے درد سر بنتی ہے۔
آخر سکھوں نے کون سے پرنبل کو استعمال کیا کہ آج کوئی بھی بھیکاری اس قوم کی رنگ و رنیل میں نہیں ملتا ہے
یہودی اور عیسائی ترقی یافتہ قومیں کون سی طریقوں کو اپنائے کہ ساری افلاک بستیاں زندگی کی ثروت بخش زمینوں میں بدل گئیں۔
ہمیں سوچنا پڑے گا
 اور اپنی قوم کے اندر سے غربت و افلاس جیسے وائرس کو دور کرنے کے لیے  ہمیں اپنے امدادی رقم کے تئیں بڑے بڑے منصوبے  ، ضوابط کے ساتھ بنانے ہوں گے _ جس کے زیر سایہ ہر انسان اک روزگار انسان بن جائے__ 
جو دیگر ترقی یافتہ قوموں کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے ہر فرد نحیف کو امداد کمیٹی کے ذریعے بھر پور تعاون کسی روزگار ، تجارت یا کسی چیز  کی ایجادات کی شکل میں کرتے ہیں___ 
    تبھی ہر فرد دیگر غربت سے دور ہر لحاظ سے اک مثالی زندگی گزر بسر کر رہا ہے  اللہ قوم  کو غربت و افلاس سے محفوظ ومامون فرما  
 یاد رکھیں! جس دن ہم صرف اور صرف زکات و صدقات کی رقم ہی کو  منصوبہ بند طریقوں  سے استعمال کرنے لگے ، اسی دن سے ہماری قوم کے اندر سے بھی غربت و افلاس کنارہ کشی اختیار کر لے گا__ لیکن بس اسی حالت پر___!
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے