تحریر: محمد ضیاءالحق قادری
ایک عقلمند انسان جب کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس کے کچھ اغراض و مقاصد ہوتے ہیں۔جن کی تکمیل کے لیے وہ شب و روز بڑے خلوص کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے۔جانی اور مالی قوت صرف کرتا ہے اور اس کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ۔اگر کچھ مصائب و مشکلات در پیش ہوں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرلیتا ہے لیکن اپنے مقصد اصلی سے قدم پیچھے ہٹانا جرم اور مشن کی توہین سمجھتا ہے نہ ہی فضول گوئی اور بیکار چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ایک انسان جب بلا مقصد کوئی کام نہیں کرتا تو کیا آپ نے کبھی اپنے وجود میں غور کیا کہ ہماری تخلیق کا مقصد اصلی کیا ہے ہمیں یہ وجود کیوں عطاء کیا گیا ہے کہ یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت دماغ اور معدہ کا پیچیدہ نظام ، جگر یہ دل آنکھ کان ،ناک،ہونٹ، زبان جسم یہ ہاتھ یہ پاؤں اور ان جیسی بے شمار نعمتیں کیوں عطاء کی گئی ہیں یہ سب اس لئے ہیں کہ ہم اپنے خالق حقیقی کو پہچان کر زندگی بسر کریں۔ خدا نہ بننے کی کوشش کریں بلکہ اس کا بندہ بن کر اپنے مالک حقیقی کی عبادت کر کے اپنی زندگی کے شب و روز کو مزین کریں۔
لیکن جب انسان اشرف المخلوقات کا تاج اتار کر حیوانیت کا لبادہ اوڑھتا ہے اور اپنے خالق حقیقی عزوجل کی ذات اقدس کو چیلنج کرتا ہے اپنے فانی ہو جانے والے حسن و جمال پہ غرور کرتا ہے مال و دولت کے نشہ میں مست و مگن ہو کر قارون بننے کی کوشش کرتا ہے یتیموں و بیواؤں مفلسوں اور کمزور قوموں پر ظلم و تشدد کی ایسی ہولناک داستان رقم کرتا ہے کہ فرعون کو بھی شکست دے جاتا ہے۔ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ جب کلی طور پر شرم و حیا کا جنازہ نکال جاتا ہے نافرمانیاں شاب پر پہنچ جاتی ہے جب گناہوں کو ہنر سمجھ کر کیا جاتا ہے اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا ہے جب بے حیا اور بے بے غیرت عورتیں میرا جسم میری مرضی جیسے تعفن زدہ متکبرانہ نعرے سر بازار بلند کرتی ہیں۔ جب سود اور زنا کو قانونی سطح پر حلال قرار دینے کے لیے غیر ملکی این جی اوز پانی کی طرح ڈالر بہا رہے ہوتے ہوں حلال و حرام کے فاصلے ختم کرنے کی ناپاک کوششیں عروج پر پہنچ چکی ہوں۔مرد و زن کے بے جا اختلاط کو عام کیا جا رہا ہو اور جب تعلیمی ادارے جس سے شعور و فکر کو جنم لینا تھا تہذیب و ثقافت کے نام پر علی الاعلان میوزک کنسرٹ منعقد کر کے شریعت اسلامیہ کے حکم کو للکار رہے ہوں۔اور تو اور جب پرائیویٹ کالجز کثیر فیس وصول کرکے اسلام کی شھزادیوں کو ٹیبلو کے نام پر ناچ و گانا کی تعلیم دے رہے ہوں۔علمائے کرام جنہیں انبیاء علیہم السلام کا وارث اور نائب کہا گیا ہے ان کو معاشرے کا کمتر اور ادنی فرد تصور کیا جا رہا ہو جب نا اہل اور بدبخت اور نا ہنجار لوگ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ چکے ہوں جب ملت اسلامیہ 95 فیصد قیمتی افراد نماز کے سجدوں سے نا آشنا ہو چکے ہوں والدین جن کے حقوق اور حرمت کی گواہی قرآن مجید دے رہا ہو وہ اپنے اولاد سے خوفزدہ ہوں ۔تو ایسے پرفتن دور میں اللہ سبحانہ تعالٰی کی طرف سے ایسی وبائیں مسلط ہوتی ہیں ۔ جس کے سامنے انسان بے بسی کی تصویر بنا ہوا نظر آتا ہے اور ایسے عذاب کے کوڑے برسنا شروع ہو جاتا ہے جو چاند پر کمندے ڈالنے والی قوموں کو بھی عاجز کر دیتا ہے۔
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ جب یہ امت مختلف گناہوں میں ڈوب جائے گی تو ان پر مسلسل ایسا عذاب آئیں گے جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اسکے دانے تیزی سے نیچے بکھرتے ہیں ۔
وباوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ انسان اپنے اس معبود حقیقی کی طرف رجوع کرے جس واجب الوجود نے انہیں ایک ناپاک نطفے سے پیدا کیا ۔عاجزی اور انکساری سے اپنی جبین نیاز زمین پر رکھ کے سبحان ربی الاعلی کی صدا بلند کریں اور سچ توبہ سے اپنے رب کو راضی کریں اور ان لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں جن کے اشک ندامت سے گناہ نیکی میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے چاہیے وہ ماضی کی وبائیں ہوں یا حال کی عالمگیر وباء (کرونا وائرس)ہو ان کے آنے اور پورے عالم میں پھیلنے کا سبب صرف اور صرف ہمارے گناہ اور بد عملیاں ہیں۔اور ان وباوں سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سچی توبہ اے اپنے رب کو راضی کیا جائے سجدوں کو آباد کیا جائے حق والوں کے حقوق ادا کیے جائیں اور یتیموں و بیواؤں اور مسکینوں کی اعانت کی جائے۔اپنی زبانوں کو اللہ عزوجل کے ذکر سے تر کیا جائے قرآن مقدس کی ناصرف تلاوت کی جائے بلکہ اس کے اصولوں کی روشنی میں زندگی کے شب و روز شائستگی اور شگفتگی کے ساتھ بسر کیے جائیں۔نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پر عمل پیرا ہوا جائے دور پاک کی کثرت کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنا لیا جائے پھر یہ آسمان اور زمین دیکھے گا کہ چند دن بھی نہیں گزر پائیں گے کہ کرونا وائرس جیسی وباء جس مالک و خالق نے بھیجی ہے وہی اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔اللہ عزوجل اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صدقے میں اس موذی مرض سے نجات
عطاء فرما آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
عطاء فرما آمین ثم آمین یا رب العالمین۔