تحریر: محمد مجیب فیضی
ابتدائے آفرینش سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کی مبارک بعثت تک خالق کائنات نے پوری انسانیت کی رشد وہدایت کے لئے بہت سے اپنے صالح اور نیک بندوں کو اس خاکدان گیتی پر منصب رسالت و نبوت کے عہدے سے سر فراز فرمایا۔ ان انبیاء ورسل کی آمد کا واحد مقصد رب کی توحید اور اپنی رسالت ونبوت کا اقرار کرانا اوران کی ظاہری زندگی کو آئینہ دار بنانا تھا۔ راہ حق سے بھٹکے ہوؤں کو صراط مستقیم کی ہدایت دینی تھی ۔ تاکہ لوگ ضلالت وگمرہی کےدلدل سے نجات پاکر ہدایت کی چکا چوند روشنی میں افراط وتفریط کے مابین اپنی مابقیہ جیون گزار سکیں۔ کفر کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کے پاک اور سنہرے اصول کی روشنی میں مطمئن ہوکر سینکڑوں فرضی مصنوعی معبودوں کی عبادت کرنے کے بجائے ایک معبود حقیقی کو پوج سکیں۔ اس وحدہ لاشریک کی دل کھول کر عبادت وریاضت کر سکیں جس نے لفظ کن سے پوری کائنات کوزینت وجودبخشا۔اور اللہ عز وجل نے اپنے ہر نبی و رسل کوالگ الگ صفات وکمالات خوبیوں سے نوازا۔ ہر نبی ورسل وقت مقررہ معینہ تک بھٹکے و بگڑے ہوئے اقوام میں دعوت وتبلیغ کرتے رہے۔ رب کی مشیت نے جب تک چاہا وہ دنیا میں رہے بعدہ دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے ۔سب سے اخیر میں آمدکےاعتبارسے اللہ جل مجدہ الکریم نے محسن انسانیت ساری کائنات کے مرجع عقیدت حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماء کر تمام انبیاء ومرسلین کے فضائل وکمالات کو ایک ذات بابرکت میں جمع فرمادیا ۔شعر ۔خدانے ایک محمد میں دے دیا سب کچھ۔کریم کا کرم بے حساب کیا کہنا ۔
آپ محاسن اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔آپ کے اخلاق کریمانہ و عفو در گزر کی لوگ مثالیں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ علم وحلم ہو رحم وکرم عفو درگزر عدل وانصاف جودوسخا ایثار وقربانی عدم وتشدت مہمان نوازی صبروقناعت ایفائےعہد حسن معاملات
نرم گفتاری خوشروی ملنساری مساوات وغمخواری سادگی وبے تکلفی تواضع وانکساری وحیاء داری ہو ۔ ان پاک خوبیوں میں سے ہر خوبی کی سب سے بلند ترین مقام پر آپ فائز تھے۔ متذکرہ بالا اوصاف میں سے ہر صفت ایک عنوان کی حیثیت رکھتا ہے ۔البتہ ہم یہاں مذکورہ اوصاف میں سب سے نمایاں وصف اخلاق کریمانہ و عفودر گزر پر ہی اکتفاء کریں گے۔جی ہاں! دنیا آج بھی اخلاق نبوی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ ایک بار کسی نے ملت کی ماں طیبہ طاہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی المولی عنہا سے دریافت کیا کہ۔ اے مؤمنوں کی ماں آپ اخلاق نبی بیان کریں ۔ولڈ کے اس تاریخی ماں نے ایک ہی جملے میں نبئ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات کو پروتے ہوئے فرمایا کان خلقہ القرآن ۔ مکمل قرآن آپ کا حسن خلق ہے ۔ قرآن پڑھتے جاؤ مصطفی ک ۔عفو کا لغوی معنی-عفو یہ عربی زبان کا ایک بہت مشہورومعروف لفظ ہے۔ لغت میں اس کا معنی درگزر کرنا ہے ۔ بخش دینا ہے ۔ اور معاف کرنا ہے۔اور شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں کسی کی زیادتی اور برائی پر قدرت کے باوجود انتقام نہ لے کر قصوروار کو معاف ودرگزر کرنے کا نام عفو ہے ۔ نوٹ: عفو کے لئے قدرت شرط ہےفقدان قدرت کی صورت میں اس کا عفو نام دینا غلط ہے ۔ پھر اسے درگزر نہیں بلکہ مجبوری کا نام دیا جائے گا۔جبکہ قصور وار کو قدرت کے باوجود معاف و در گزر کرنا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہونے کے ساتھ ہر مسلم ومومن کا ایک مذہبی فریضہ بھی ہونا چاہئیے۔ اوراس عمل حسنہ پر امت مسلمہ کو عملی جامہ پہنانا چاہئیے۔ تاکہ آپس میں الفت ومحبت تا دیر قائم ودائم رہ سکے۔ درگزر کرنے کے بھی دو درجے ہیں ایک اسفل دوسرا اعلی ہے۔ قصور وار کو معاف کرنا اگر چہ اس کی معافی پر طبیعت آمادہ نہ ہو یہ اسفل کہلاتا ہے۔اور قصورار کو دل کی رضامندی سے معاف کرکے اسے کچھ پیش احسان کرنا یہ اعلی کہلاتا ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت قرآن حکیم میں اپنے بندوں کو درگزر کی صحیح تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔
والذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس ان اللہ یحب المحسنین۔(القرآن سورۃ آل عمران )ترجمہ:اور وہ لوگ جو کشادگی اور تنگی میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو درگزر کرتے ہیں بےشک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں غصہ پی جانے اور قصوروں پر در گزر کرنے والوں کو رب تعالی نے پسند فرماتے ہوئے ان کے متعلق اپنی محبوبیت کا واضح اظہار بھی فرمایا۔اورپھر غصہ پی جانا یہ کوئی عام بات نہیں بلکہ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے ۔اورغصہ پی کر مجرموں قصورواروں خاطیوں کو دل سے معاف کرکے ان سے حسن سلوک کرنا یقینا اس طرح کا تصور دین اسلام کو چھوڑ کر کسی اور مذہب میں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتا ۔ کیوں کہ کچھ ادیان کے ماننے والے افراط وتفریط کے شکار ہو گئے۔  
;چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کے دین میں حد سے زیادہ سختی اور حضرت عیسی علیہ السلام کےدین میں حد سےزیادہ نرمی تھی۔ جبکہ دین اسلام ہی ایک ایسا مہذب دین متین ہے جو افراط وتفریط کے مابین ہے۔ نہ اس میں حد سے زیادہ سختی ہے اورنہ اس میں حد سے زیادہ نرمی۔ احادیث مبارکہ میں عفوودرگزر کرنے کی فضیلت :
مذکورہ صفات کے حاملین کے متعلق حدیث مبارکہ میں بڑی یفضیلت آئی ہے۔ چنانچہ صحابئ رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ کے حبیب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میں نے جنت میں اونچے اونچے خوبصورت محلات دیکھے تو حضرت جبریل امین سے دریافت کیا کہ اے جبریل! یہ کن لوگوں کے لئے ہے۔ سید الملائکہ جبریل امین نے عرض کیا یا رسول اللہ!یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو غصہ کو پی جاتے ہیں ۔اورلوگوں کو عفودرگزر کرتے ہیں ۔اور ایسے ایک مقام پر
حدیث شریف میں ہے کہ آقاجان وایمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک مرتبہ آپ کے ایک بڑے ہی محبوب نظر اورچہیتے صحابئ رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ۔ میں مالک کون ومکاں حضور احمد مجتبی محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کے ہمراہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔اور آپ کے دوش مبارک پر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے موٹے اور کھر درے تھے۔اچانک ایک اعرابی نے رداء مبارک کو اپنی بدویت بھرے انداز میں جھٹکا دےکر اتنی تیزی کے ساتھ کھیچنا کہ آپ کے گردن پر چادر کی کھینچاؤ سے خراش آگئی۔پھر بدوی نے اپنی دیہاتی زبان میں کہا کہ
(اے محمد) آپ کے پاس جو مال غنیمت ہے آپ حکم فرمائیےکہ اس میں سے کچھ مجھے ملے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر رحمت فرماتے ہوئے مسکرا پڑے اور دینے کا حکم فرمایا۔ (متفق علیہ)
اورانسانی تاریخ میں اس سے بڑھ کر عفو در گزر کی مثال کیا ہوسکتی ہے۔کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور رحمۃ اللعلمین نے اپنے ان تمام دین کے دشمنوں کو معاف ودر گزر فرمایا دیا۔ جنھوں نے آپ کو اور آپ کے وفادار و جانثار ساتھیوں کو تقریبا دسیوں سال سے زیادہ ظلم وستم کا نشانہ بناتے رہے۔ مصائب وآلام سے دوچار کرتے رہے۔ان پاک ہستیوں کی حیات کو مشکل سے مشکل تر بناتے رہے۔ آپ اور آپ کے پکباز صحابہ پر عرصۂ حیات تنگ کرتے رہے۔طرح طرح کی اذییتں تکلیفیں پہونچانے کے لئے سعئ پیہم کرتے رہے۔ حتی کہ آپ کو آپ کے وطن عزیز کی علیحدگی پر ان شریروں نے مجبور کردیا۔بہرحال, مکہ فتح ہوااور فاتح اعظم نبئ کونین صلی اللہ علیہ وسلم بہتیرے صحابۂ کرام کی معیت میں تحمید رب العلمین کی نغمہ سرائی کرتے ہوۓ حرم شریف میں داخل ہوئے۔ اوراس قادرالمطلق کا شکر ادا کرتے ہوئے دوگانہ اداکیا۔جبکہ پورا صحن حرم قیدیوں کی شکل میں دشمنان اسلام سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے ہر طرف سراسیمگی اور خوف وہراس کا ماحول ہے اعداء دین ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ جسموں پر کپکپی کا طریان ہے ۔کہ آج تو ہمارے پچھلے اور اگلے سبھی کالے کرتوتوں کا حساب کتاب چکایا جائے گا۔ آج تو انتہائی المناک ووحشت ناک صورت میں ہمارا محاسبہ کیا جائے گا۔زبانوں میں لڑکھڑا ہٹ اور چہروں پر اداسی ومایوسی کے آثار نظر آنے لگے۔ اتنے میں اچانک ایک بلند ہوئی کہ اے قریش کے لوگو! تم سب یھی سوچ رہے ہو نا کہ آج میں تم لوگوں کے ساتھ پتہ نہیں کیا کرنے والا ہوں۔ اتنا سنتے ہی ان تمام مجرموں نے بیک زباں ہو کر کہا۔ اے محمد!! آپ سے ہمیں بھلائی اور خیرکی امید ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب
نے ان سبھی کو آزاد اور رہا فرمادیا یہ فرماتے ہوئے کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں تم سب آزاد ہو۔
الغرض!! حیات نبوی کی تواریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات پڑھنےاور سننے کو ملتے ہیں۔ جس سے صاف طور یہ ظاہر ہے کہ قدرت کے باوجود مجرموں دشمنوں کو چھوڑ دینا اور انہیں معاف ودرگزر کرنے کے ساتھ ان پر بردباری سے پیش آنا آپ کی عادت کریمانہ ہونے کے ساتھ آپ کے اخلاق نبوت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
اور ساری دنیا میں عدیم المثال ہے۔
چنانچہ!!ام المؤمنین زوجۂ نبی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ۔ وماانتقم رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم لنفسه الا ان تنتھک حرمات اللہ تعالی ۔ (الحدیث) ترجمہ!! حضرت عائشہ طیبہ طاہرہ فرماتی ہیں۔ کہ اللہ کے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے کسی ے بدلہ نہ لیا مگر جب کوئی اللہ کی حرام کردہ شی کا مرتکب ہوتا تو اس سے مواخذہ مطالبہ ضرور فرماتے تھے۔
حدیث نبوی کی ضو بار کرن میں عفو درگزر کی نہایت عمدہ اور اچھوتا تعلیم دی گئی ہے۔ کہ ایک بندۂ مومن کے لئے یہ غیر مناسب اور اسلامی نظریۂ کے بھی خلاف ہے کہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دے بلکہ برائی کابدلہ برائی سے نہیں بلکہ عفوودرگزر نرمی بردباری ملنساری سے دینا چاہئیے۔تاریخ شاہد ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی برائی کابدلہ برائی سے نہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اسلام کی ت
بلیغ واشاعت میں بڑی سے بڑی پریشانی لاحق ہوئی کبھی شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا۔تو کبھی طائف میں لہولہان ہونا پڑا۔ تو کبھی کفارومشرکین کی دشنامی اور طعنوں کو جھیلنا پڑا۔ ان کے سب وستم کو برداشت کرنا پڑا۔ بڑھیا نے کوڑا ڈالا کئی دن مسلسل کوڑا ڈالنے کے بعد جب پتہ چلتا ہے کہ ضعیفہ علیل ہے طبعیت صحیح نہیں مصطفی کریم کا اس کی عیادت کے لئے جانا۔ مکہ المکرمۃ کےشریر غنڈوں نے عین نماز کی حالت میں آپ پر اونٹنی کی اوجھڑی اور اسکی مینگنی ڈالا کفار ومشرکین نے آپ کو پریشان کرنے کے لئے ہر طرح کا ہربہ استعمال کیا۔ مگر حضور نے ان ظالموں سے ان انسانی شکل درندوں سے ان شریروں سے ان کے اس کئے ہوئے بیہودگی کا کوئی بدلہ نہ لیا اور نہ کسی قسم کا مواخذہ اور مطالبہ کیا۔ اوروہ نبی جو گرتے ہوؤں کو تھامنے آئے تھے ۔وہ بدلہ کیوں کر لیتے وہ تو بندگان خدا کو توڑنے کے لئے نہیں بلکہ رحمت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو جوڑنے کے لئے آئے تھے۔ وہ کسی کو تکلیف دینے کے لئے نہیں بلکہ پہونچی ہوئی تکلیف سے لوگوں کو نجات دینے آئے تھے۔وہ کسی پر بوجھ بننے نہیں بلکہ اپنی امت کے بوجھ کو ہلکا کرنے آئے تھے۔لوگوں کے مسیحا بن کر آئے تھے۔کیوں کہ اللہ جل مجدہ الکریم نے آپ کو وما ارسلنک الا رحمۃاللعلمین کے عظیم خطاب سے نوازا اور خلاق کائنات نےآپ کو ساری کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ مولی تبارک وتعالی امت مسلمہ کو تعلیم نبوی پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔