تحریر: میر ابراہیم سلفی
مدرس :سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
مساجد اور منابر کبھی پیغام محبت پھیلانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے، اب یہی مقدسات دلوں میں نفرتیں گھر کرنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ جہاں دیکھو۔۔۔۔ اسلام کے متبعین ایک دوسرے کی تکفیر، تفسیق اور تبدیع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔سلف صالحین کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ بڑے بڑے محدثین، فقہاء، صالحین پر تنقیدی آراء لکھے، پڑھے اور پھیلاۓ جارہے ہیں۔متقدمین سے اختلاف کرنے والے علماء نہیں بلکہ اردو کی چار کتابیں پڑھنے والے کم عقل، کم علم، کم فہم نوجوان ہیں۔نہ اساتذہ کی رہبری، نہ مشائخ کی صحبت۔۔۔خودساختہ مطالعہ کے نام پر الحاد اور دین بیزاری ملت اسلامیہ کے اندر تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔مثلاً دو یا تین سال کسی مدرسے میں پڑھنے والا طالب علم بھی آج یہ جرأت کررہا ہے کہ امام بخاری، امام مزی، امام منذری، امام ذہبی وغیرہ علماء سے اختلاف کرے۔ علمی و شرعی حدود میں
اختلاف کرنا قابل تحسین ہے لیکن اولاً اس درجہ تک رسائی حاصل کرنی ہے جس درجہ پر فائز بندے سے آپ اختلاف کررہے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ دو چار اردو کتابیں پڑھ کر، کتب احادیث کا ترجمہ پڑھ کر ایک جاہل اور دینی مبادیات سے لاعلم فرد ان بزرگ ہستیوں پر اپنی ناقص آراء عوام کے سامنے رکھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
علماء، محدثین، فقہاء، مفسرین کے اقوال و آراء میں اختلاف ہونا کوئی نئی چیز نہیں، یہ تو علم کی زینت ہے۔ایک ہی مسئلہ پر شارحین کی مختلف تشریحات دراصل علمی رونق ہے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ اسی اختلاف کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لئے منبر و محراب کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔سلف صالحین کے یہاں فقہی و اجتہادی اختلاف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لئے عزت، احترام، وقار، جزبہ ایثار، محبت دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا تھا۔یہاں کسی اپنے نے ہی اس غلط فکر کو پروان چڑھایا کہ آج بچہ بچہ اسلاف پر تبراء کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ ہماری اوقات نہیں کہ ائمہ کے اختلاف کے بارے میں لب کشائی کریں، ہماری اوقات نہیں کہ جرح و تعدیل کی مسند پر ٹیک لگا کر بیٹھ جائیں، ہماری اوقات نہیں کی شعبہ افتاء میں کود پڑیں۔جمعہ پڑھانے سے کوئی طالب علم یا عالم نہیں بنتا، عصر حاضر کے حالات و واقعات شاہد ہیں کہ یہاں خطابت کی باگ ڈور نعت خواں بچوں کے ہاتھوں میں رکھی گئی ہے۔نہ اصولوں کی معرفت اور نہ ہی فروعات کا تعارف، نہ عربی لغت پر عبور اور نہ ہی فن رجال پر نظر، نہ علوم الحدیث کی خبر اور نہ ہی علم تجوید پر عمل۔ یہاں خطیب بھی وہی جو ترنم سے لوگوں کے دلوں کو راحت بخشے۔حیران ہوتا ہوں کہ پھر یہی افراد خود کو علماء کے صفوف میں داخل کرکے نفرتوں کا زہر ملت اسلامیہ کی رگوں میں بھر رہے ہیں۔
ملت اسلامیہ ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ حنفی سلفی کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار نہیں اور سلفی حنفی کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار نہیں۔ کوئی کسی کی امامت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مسلکی منافرت نے ہمارے قلوب سے ایک دوسرے کی محبت نکال دی۔ایک مسلک والا دوسرے مسلک والے کو سلام و کلام کرنے کے لئے تیار نہیں۔ایک فرقے کی مسجد میں دوسرے مکتب فکر کا داخلہ مفتوح نہیں۔مسلکوں کی گھٹن نے "امت” کا درد مٹا کے رکھ دیا۔ لفظ "امت” بھی اب بیگانہ ہوچکا ہے۔ اب ہماری شناخت اسلام کے ذریعے نہیں بلکہ مسلکوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ لیکن عملاً ہمارا کردار فرعون سے بھی بدتر ہے۔ نوجوان اسلام ارتداد و الحاد کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔فحاشی و بدکرداری کو رسم و فیشن سمجھ کر اپنایا جا رہا ہے۔ منشیات کا رجحان اپنی انتہا پار کرچکا ہے۔۔۔۔ لیکن مسالک کے ذمہ داران ابھی معمولی اختلافی مسائل سے ہی باہر نہیں آرہے۔واعظین و مبلغین اصلاح کو چھوڑ کر شہرت کے پیچھے باگ رہے ہیں۔ہم ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔فروعات میں اختلاف سے کوئی اہل سنت سے یا اسلام کے دائرے سے نکل نہیں جاتا، اپنے نظرئے کو وسعت بخشنے کی اشد ضرورت ہے۔
سرتاج رسل ﷺ کا فرمان ہے کہ، "مومن شفقت و غم گساری کا پیکر مجسم ہوتا ہے اور اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو نہ کسی کا مونس و غمخوار ہو اور نہ کوئی اس کا محب و ہمدرد ہو”.(مشكوة) امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مرفوعاً نقل کی ہے کہ، ” سارے مسلمان جسم واحد کی طرح ہیں، اگر اسکی آنکھ دکھتی ہے تو سارا جسم بیمار ہو جاتا ہے اور اگر اس کا سر درد کرتا ہے تو (بھی) اس کا سارا جسم بیمار پڑ جاتا ہے ".(صحیح مسلم) امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ، ” ایک مومن دوسرے مومن کے لئے بنیان(مرصوص) کی طرح ہے، کہ ہر جزء دوسرے جزء کے ساتھ انتہائی مضبوط و مستحکم طور پر پیوستہ ہے”.(متفق علیہ) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک قول منصوب ہے کہ، "کسی با ایمان شخص سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جو بظاہر کفر صریح ہو،اگر اس فعل میں ننانوے شعبہ کفر کی طرف لے جاتے ہوں اور ایک شعبے میں تاویل کی گنجائش باقی ہو تو تاویل کرکے فاعل کے متعلق حسن ظن رکھا جائے گا”.جو اقوال و افعال ذو معنیٰ ہوں، ہمیں چاہیے کہ حسن ظن کا تقاضا مد نظر رکھ کر خیر کی طرف ایسے اقوال و افعال کو موڑدیں۔نہ جنت ہماری، نہ دوزخ ہمارا، نہ سزا دینے کا اختیار اور نہ ہی صلہ دینے کی طاقت۔ یہ فقط رب کائنات قادر مطلق کے اختیار میں ہے۔
When I say I love you more, I don’t mean I love you more than you love me. I mean I love you more than the bad days ahead of us, I love you more than any fight we will ever have. I love you more than the distance between us, I love you more than any obstacle that could try and come between us. I love you the most.
ضرورت اس بات کی ہے کہ امت سے خیر خواہی کی نیت سے عوام الناس کو دین کے متعلق بنیادی اجزاء کو واضح کیا جائے۔ قرآن کی تعلیم پر زور دیا جائے، بنیادی فقہی مسائل جیسے وضو، غسل، طہارت کی تعلیم دی جائے۔ عقیدے کا تعارف کروا کر رب العباد کی معرفت حاصل کروائی جائے۔ اختلافی مسائل کو بالاۓ تاک رکھ کر ایک دوسرے کے لئے جزبہ احترام کو پیدا کیا جائے۔ ایک امت بن کر کام کرنا ہے۔ رشتوں کو توڑنا نہیں بلکہ جوڑنا ہے۔ فتویٰ بازی کو چھوڑ کر عمل کی طرف دھیان دینا ہے۔ لوگوں کو اپنی طرف نہیں بلکہ دین کی طرف لگائیں۔۔۔۔۔۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ نفرتوں کی ان تیروں کے بیچ میں ہمیں محبت کی کمان عطا کرے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔