ازقلم : ابو عبید رحمانی
اجی سنتے ہوجی!
سنائیے بیگم۔
"اپنی شبّو کے لچھن مجھے کچھ اچھے نہیں لگ رہیے؟ اسے کالج سے نکال کر گھر بٹھا دو؟”.
خبردار !جو ایسا کہا! تم کیا جانو آزادی اور اعلی تعلیم کی اہمیت ،جاہل گنوار عورت۔۔۔ ۔
نہیں جی، نہیں!
وہ وشال درویدی اسے بائک پر بٹھا کے گھمانے لے جاتا ہے۔۔کہیتی ہے وہ کیا کہتے ہیں نا،بوائے فرینڈہے میرا!
کیا بک رہی ہو تم؟؟؟
"اجی نہیں جی، نہیں "
پرسوں واجد نے بغیر برقعہ کے دونوں کو کمر میں ہاتھ ڈالے چاٹ کھاتے دیکھاتھا. تب ہی تو کہہ رہی ہوں ، کہیں آپ کی عزت پر آنچ نہ آجائے۔۔۔۔
"پر ہماری شبو تو سخت پردہ کرتی ہے، دینی اجتماع بھی کرتی ہے۔ روزے نماز بھی کرتی ہے۔پھر۔۔۔ "
پتہ ہے جی !!!
سنیے جی! سنتا ہوں بیگم ۔
کہیں لو ارتداد والی بات نہ ہوجائے کہیں ۔۔۔
پتہ نہیں بیگم، کل احمد میاں نے بھی سرفراز صاحب پربھنی والوں کی بیٹی کی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی اور ارتداد کی بات سنائی تھی۔اور دو ہفتے پہلے ممبئی کی ایک لڑکی بھی تین دن گزار آئی اپنے غیر مسلم بوائے فرینڈ کے ساتھ ۔۔۔۔
نہیں جی نہیں ! الله نہ کرے ۔۔۔۔
"ہماری شبو ایسا نہیں کرسکتی۔ چار بھائی، تین بہنیں ہے اس کی ۔اور ہمارا خاندان تو پکا مذہبی ہے”۔
ہاں جی ہاں بیگم !
پرکڑی نظر رکھو اس پر، اور بند کرو اس کی آزادی،گھومنا پھرنا۔ موبائل پر چپکے رہنا۔۔
"اجی ہاں جی ہاں ۔
آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی”۔
پتہ ہے بیگم! کسی کے گھر، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
"آجکل لو ارتداد کی ہوا جو چل رہی ہے”۔۔ کچھ مسلم لڑکیوں کی دلچسپی اب غیر مسلم لڑکوں میں زیادہ ہوگئی ہے۔
"پتہ ہے جی ،پتہ ہے”!!!!
میں اتنی بھی جاہل نہیں ہوں، "لو” نہیں کیا پر سمجھتی سب ہوں اس کے طور طریقے۔ اسی لیے تو آزادی، بے پردگی، بے حیائی، فلرٹ، تنگ اور چھوئے کپڑے، غیر مردوں سے ملنا ملانا، جسم کو ڈھانکنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ کھلا رکھنے کی وکالت کرتے ہیں مردودے، دیوث کہیں کے ۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم