ازقلم: عابدہ ابوالجیش
ہائے کسی کو کیا خبر اور کیا علم اسے اس اذیت و لاچارگی و بے بسی کی کیفیت کا ، جب کشتیاں جل چکی ہوں ، جب کنارے چھوٹ چکے ہوں ، جب بیچ بھنور ہم ڈوب رہے ہوں ، جب خود ہی ہر طرف گرانے والوں کو پا کر ہم بلندی سے کود رہے ہوں ، جب جان جسم سے جدا ہونے کو ہو اور آنکھوں کی پتلیاں اوپر کو چڑھ رہی ہوں ، ہم پر جو بیت رہی ہوتی ہے وہ کوئی کیسے جان سکتا ہے ؟ اسے تو بس ہم جانتے ہیں یا ہمارا رب جانتا ہے ، ہائے وہ وقت کہ جب درد کی لہریں ساحلِ دل سے ٹکراتی ہیں اور اسے کبھی اٹھاتی ہیں تو کبھی گراتی ہیں ، اسی اٹھک پٹخ میں دل پھاڑیاں پھاڑیاں ہو جاتا ہے ، تب کوئی ہمت بھی بڑھائے تو الفاظ مانندِ زہر محسوس ہوتے ہیں ، آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے اور چہرہ بے بسی و بے کسی کا مظہر ، وہی تو وقت ہوتا ہے جب ہم جڑتے ہیں قرآن سے ، پھر اس پاک کلام کے الفاظ درد کو اپنے حصار میں جکڑ کر اس کی شدت کو کم کرتے ہیں ، قرآن بولتا ہے۔۔۔! "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے” اللہ اکبر۔۔۔! کتنے تسکین آور الفاظ ہیں کہ۔۔! فوراً دل کے کناروں کو چھو کر اندر تک سرایت کر جاتے ہیں ، اور پھر ہم جیسے کمزور ؤ ناتواں بندے صبر کی آیات تھام کر چلتے ہوئے اپنے لیے باری تعالیٰ پہ یقین کی راہ ہموار کرتے ہوئے اتنے مضبوط ہو جاتے ہیں کہ پھر یہ یقین کبھی نہیں ٹوٹتا ، کیونکہ جب ہم ٹوٹ کر جڑتے ہیں نا تو پھر ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش تو ہوتی ہی ہمارے خالی کوزوں کو صبر و رضا سے بھرنے کے لیے ہے اور اسمیں بھلائی کسی اور کی نہیں ہماری ہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہم کامیاب رہیں ، اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے اور وہی ہے کہ جسے چاہے ہدایت دے دے ، جسے چاہے گمراہ کر دے ، اس کے کلام میں بڑی برکت ہے ، وہ نورانی ، آسمانی ، روحانی کتاب ہے ، کتنا بدبخت اور بدبودار ہے وہ شخص جو اسے اپنے دل میں مکمل اتار کر بھی گمراہ رہتا ہے اور بدمعاشیاں ، کمینگیاں ، کم ظرفیاں ، حرامزدگیاں ، ہوس پرستیاں ، شیطانیاں ، بے ہودگیاں ، بے شرمیاں ، بے ایمانیاں ، بد اخلاقیاں ، بدزبانیاں ، بدمستیاں ، خرمستیاں ، زیادتیاں ، نا انصافیاں کرتا چلا جاتا ہے اور ناچاقیاں ڈلواتا چلا جاتا ہے ، دلوں میں دوریاں ڈالتے ہوئے قطع تعلقیاں کرتا چلا جاتا ہے ، اور کتنا نیک بخت ہوتا ہے وہ انسان کہ کسی ایک آیت کی بدولت اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہو جائے ، وہ صالح بن جاتا ہے اور ان تمام اخلاق رذیلہ سے اجتناب برتتا ہے ، یہ سب خالصتاً اللہ کی عنایت ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے ہم کیسے اس عنایت کو حاصل کرتے ہیں ، توبہ کیجیے ، توکل اختیار کیجیے ، راست باز بن جائیے ، خود کو احکامات الٰہی کے مطابق ڈھال لیجیے ، اس سے پہلے کہ اسکی جانب سے بلاوا آئے ، اسکی جانب لوٹ جائیں ، ویسے بھی ایک دن اسی کی طرف ، اسی کی جانب لوٹنا ہے ، ہاں پر امید رہیں وہ رحمت والا ہے ، بخشنے والا ہے۔