اختلاف اور ہمارا طرز عمل

ازقلم: کامران غنی صبا


اگر ہم اپنی سماعتوں کو صرف اپنے مزاج کے مطابق سننے کا عادی بنا لیں تو ہماری ترقی اور بہتری کی راہیں مسدود ہو جائیں گی. لیکن افسوس کہ ہم میں سے بیشتر لوگ صرف اپنے مزاج کے مطابق سننا پسند کرتے ہیں. جو شخص ہمارے مزاج کے برخلاف کچھ کہنے کی جسارت کرے وہ ہمیں اپنا دشمن نظر آنے لگتا ہے. ایسے میں افہام و تفہیم کے راستے بند ہونے لگتے ہیں. اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے گھر میں ایسی فکری تنگ نظری نہیں ہے. ہمارے کچھ شناسا ہم بھائیوں کی فیس بک پوسٹس اور تحریریں دیکھ کر کئی دفعہ یہ سوال پوچھ چکے ہیں کہ کیا آپ بھائیوں کے درمیان بنتی نہیں ہے. اس سوال کا جواب اس سے زیادہ اور کیا دیا جا سکتا ہے کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیں آپ کو حقیقت حال کا اندازہ ہو جائے گا. یہ درست ہے کہ کئی معاملات میں ہم بھائیوں کا مؤقف ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے اور سبھی اپنے اپنے مؤقف پر سختی سے کاربند بھی رہتے ہیں لیکن الحمد للہ کبھی کوئی تنازعہ کی صورت پیدا نہیں ہوتی. یقیناً یہ والدین اور بطور خاص نانا علیہ الرحمتہ کی تربیت کا نتیجہ ہے. دنیا جانتی ہے کہ نانا جان پروفیسر حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی رحمۃ اللہ علیہ خانقاہی مزاج کے حامل تھے. لیکن ان کی طبیعت میں تشدد بالکل بھی نہیں تھا. ہمیں نانا جان سے مودودی صاحب کی کتابیں پڑھنے کی تحریک ملی. میں نانا جان رحمۃ اللہ علیہ کے دست بابرکات پر بیعت ہونے اور ان کے علم و کمال کے سامنے بالکل ہیچ ہونے کے باوجود کئی دفعہ بااطمینان ان سے اختلاف کرتا تھا. وعدہ خلافی پر انتہائی برہم ہو جانے والے نانا جان اختلاف رائے پر برہم ہونے کے بجائے گھنٹوں پوری دلچسپی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور کبھی زبردستی قائل کرنے کی کوشش نہیں کرتے. ماموں جان سے آج بھی مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوتی ہے.
کچھ روز قبل ماموں زاد بھائی ابصار بلخی نے ایک بہت ہی نادر و نایاب خط نکال کر دکھایا. یہ خط دادا جان علیہ الرحمتہ سید شاہ نعمان غنی دیوروی نے پرنانا سید شاہ تقی حسن بلخی رحمتہ اللہ علیہ کو لکھا تھا. چونکہ دادا جان سخت گیر دیوبندی فکر کے حامل تھے چنانچہ اس خط میں بہت شائستگی کے ساتھ بہت سارے سوالات قائم کیے گئے تھے. خط کے آخر میں گھر والوں کی خیر خیریت، رشتہ داروں کی خبر گیری اور دعا و سلام بھی ہے. دوسرا خط پرنانا علیہ الرحمتہ کا ہے جس میں تمام سوالات کے جواب دلائل کے ساتھ دینے کی کوشش کی گئی ہے. دونوں خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. دونوں خطوط پرانے ہونے کی وجہ سے تصویر میں صاف نہیں آ پا رہے ہیں. ان شاء اللہ ٹائپ کروانے کے بعد انہیں پوسٹ کرنے کی کوشش کروں گا.
رواداری کی یہ روایت الحمد للہ ہمارے یہاں ابھی تک قائم ہے. ہم لوگوں نے اپنے بزرگوں سے ہی سیکھا کہ رواداری کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے نظریہ کو دوسروں کے نظریہ میں ضم کر دیں یا دوسروں کے افعال و کردار کو قبول کر کے رواداری کا ثبوت پیش کریں. اصل رواداری یہ ہے کہ ہم اپنے نظریہ پر عمل پیرا رہتے ہوئے دوسروں کو اختلافات کے ساتھ قبول کریں. دوسروں کو دلائل کے ساتھ قائل کرنے کی کوشش کریں زیر کرنے کی نہیں.
آج صرف مذہبی معاملات میں ہی نہیں ہر معاملے میں رواداری کا زبردست فقدان ہے. نئی نسل آداب اختلاف سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہے. اس کے لیے بہت حد تک ہمارے بڑے بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں ہم اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں. آج اگر شائستگی کے ساتھ بھی کسی سے اختلاف کیجیے تو چہرے کے آثار فوراً تبدیل ہونے لگتے ہیں. اس رویہ کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو آنے والی نسلیں عدم رواداری کی ایسی گہری کھائی میں گر جائیں گی جہاں سے واپس آنا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوگا.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے