سبق آموز بھی اور امید افزا بھی!

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے ماں باپ زندہ ہیں ،، باپ سرپرست ہوتا ہے ، مضبوط سایہ ہوتا ہے بیٹے کے لئے باپ ایک عظیم ہستی ہے اور ماں نیک ہے تو وہ گھر ایک بہترین یونیورسٹی ہے اور ایسی یونیورسٹی جہاں باپ کی سرپرستی ہو ماں کی گود اور آنچل درسگاہ ہو تو وہ تربیت کا گہوارہ ہے یعنی ایک عظیم الشان تربیت گاہ ہے جہاں والدین کی فرمانبرداری کا درس دیا جاتا ہو ، جہاں چھوٹے بڑے کا ادب احترام سکھایا جاتا ہو تو ایسے شامیانے میں رہنے والا شخص یقیناً تہذیب یافتہ ہوگا اس کے کارنامے ایسے ہوں گے جو دوسروں کے لئے سبق آموز ہو گے اور کسی کے لئے امید افزا بھی ہوں گے ،، آئیے آج کے ماحول پر نظر رکھتے ہوئے ماں باپ کی ضعیفی جوان بیٹوں کے حالات پر غور کیا جائے ایک طرف حالت ضعیفی خواہشات اور امید مدنظر رکھا جائے ارمانوں کا بھی خیال کیا جائے اور ڈرا اس کا نقشہ کھینچا جائے تاکہ تحریر کا کچھ حاصل نکلے اور سب کے ذہنوں میں بات بیٹھے ہوسکتاہے کسی بیٹے کے دل میں خدمت والدین کا جذبہ پیدا ہوجائے ،،

ایک نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے لیکن بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ انہیں کسی مہنگے ہوٹل میں ضرور کھانا کھلائے گا اسی لیے اس نے اپنی پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی میں ماں باپ جیسی عظیم ہستیوں کے ساتھ شہر کے مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا.

باپ کو رعشے کی بیماری تھی، اُسکا جسم ہر لمحہ کپکپاہٹ میں رہتا تھا، اور ضعیفہ ماں کو دونوں آنکھوں سے کم دیکھائی دیتا تھا یہ شخص اپنی خستہ حالی اور بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ جب ہوٹل میں داخل ہوا تو وہاں موجود امیر لوگوں نے سر سے پیر تک اُن تینوں کو یوں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جیسے وہ غلطی سے وہاں آ گئے ہوں، غریبوں کو اس ہوٹل میں آنے اور کھانے کا حق ہی نہیں ہے لیکن بیٹے نے کسی کی کوئی پرواہ نہ کی اس کے دل میں ماں باپ کو خوش کرنے کا جذبہ تھا-

کھانا کھانے کیلئے بیٹا اپنے دونوں ماں باپ کے درمیان بیٹھ گیا وہ ایک نوالہ اپنی ضیعفہ ماں کے منہ میں ڈالتا اور دوسرا نوالہ بوڑھے باپ کے منہ میں۔ کھانے کے دوران کبھی کبھی رعشے کی بیماری کے باعث باپ کا چہرہ ہل جاتا تو روٹی اور سالن کے ذرے باپ کے چہرے اور کپڑوں پر گر جاتے۔ یہی حالت ماں کے ساتھ بھی تھی، وہ جیسے ہی ماں کے منہ کے پاس نوالہ لے جاتا تو نظر کی کمی کے باعث وہ انجانے میں ادھر اُدھر دیکھتی تو اس کے بھی منہ اور کپڑوں پر کھانے کے داغ پڑ جاتے۔

اِردگرد بیٹھے لوگ جو پہلے ہی انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، وہ اور بھی منہ چڑانے لگے کہ کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے اور اتنے مہنگے ہوٹل میں آ جاتے ہیں بیٹا اپنے ماں باپ کی بیماری اور مجبوری پر آنکھوں میں آنسو چھپائے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے۔ اِردگر کے ماحول کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک عبادت سمجھتے ہوئے انہیں کھانا کھلاتا رہا
کھانے کے بعد وہ ماں باپ کو بڑی عزت و احترام سے واش بیسن کے پاس لے گیا، وہاں اپنے ہاتھوں سے انکے چہرے صاف کیے کپڑوں پر پڑے داغ دھوئے اور جب وہ انہیں سہارا دیتے ہوئے باہر کی جانب جانے لگا تو پیچھے سے ہوٹل کے مینجر نے آواز دی اور کہا بیٹا تم ہم سب کیلئے ایک قیمتی چیز یہاں چھوڑے جا رہے ہو.اب نوجوان حیرت میں پڑگیا کہ میرے تو کوئی بیگ نہیں ، سوٹ کیس نہیں ، ساتھ میں کوئی سامان نہیں پھر کیا چھوٹ گئی میں تو خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ جارہا ہوں ، ماں باپ کو لیوا کر آیا تھا اور ماں باپ کو لیوا کر جارہا ہوں،،
ا س نوجوان نے حیرانگی سے پلٹ کر پوچھا کیا چیز مینجر اپنی عینک اُتار کر آنسو پونچھتے ہوئے بولا نوجوان بچوں کیلئے سبق اور بوڑھے ماں باپ کیلئے امید ،، ہم تمہارے اس جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں یقیناً تم اپنے ماں باپ کی جس طرح خدمت کررہے ہو اس سے تمہارے ماں باپ بھی خوش ہوں گے اور رب ذوالجلال بھی راضی ہوگا اور وہ منیجر پھر ہوٹل کے پورے اسٹاف کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے لوگوں نیک انسان دیکھنا چاہتے ہو تو اس نوجوان کو دیکھ لو ، ایک کامیاب انسان دیکھنا چاہتے ہو تو اس نوجوان کو دیکھ لو جس نے والدین کے ساتھ حن سلوک کیا اور والدین کی خدمت کی جس سے حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہوئی اور حقوق العباد کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہے کیونکہ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی اور کمی آخرت میں شرمندگی کا باعث بنے گی ،،
اللہ تبارک تعالیٰ جنکے ماں باپ زندہ ہیں ان کو لمبی عمر عطا فرمائے اور جن کے ماں باپ وفات پا چکے ہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے. آمین-

تحریر:جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے