عدالت کے فیصلہ سے ہمارے موقف کو تقویت ملی کہ دہلی پولس نے ناقص تفتیش کرکے مسلمانوں کو پھنسایا: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی: 3ستمبر2021، ہماری آواز(پریس ریلیز)
دہلی فساد معاملے کی سماعت کرنے والے کرکاڈومہ سیشن عدالت کے جج ونود یادو نے نا کافی ثبوت و شواہد اور ناقص تفتیش کی بناء پر تین مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا یعنی اب ان ملزمین کو مقدمہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ملزمین میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم کے ساتھ راشد سیفی اورشاداب شامل ہیں ،عدالت نے انہیں مقدمہ سے بری کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ’’دہلی پولس کی ناقص و ناکام تفتیش کی بناء پر دہلی فساد تاریخ میں یاد رکھا جائے گاــ‘‘ ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا،گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا )اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا ۔ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ وکیل ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاون وکلاء دنیش تیواری وغیرہ نے الزامات پر بحث کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے ، ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت و شواہد اکھٹا کیئے اور انہیں پھنسایا گیا ۔ وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین کے خلاف صرف پانچ لوگوں نے گواہی دی ہے جس میں چار پولس والے شامل ہیں جبکہ ایک عام شہری ہے ، انہوںنے عدالت کو مزید بتایا کہ دو سو لوگوں کے ہجوم میں سے صرف انہیں تین لوگوں کی نشاندہی کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزمین کو منظم طریقے سے مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے۔ حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی سخت مخالفت کی لیکن عدالت نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے تینوں ملزمین کو دیال پور پولس اسٹیشن مقدمہ (چاند باغ ) سے ڈسچارج کردیا اور پولس کی ناقص تفتیش پر سخت برہمی کااظہاربھی کیا ۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ مقدمہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے پیسوں کی بربادی ہے کیونکہ تفتیش صحیح رخ پر نہیں کی گئی۔عدالت نے مزید کہا کہ یہ تفتیشی ایجنسی کی ناکامی ہے کہ انہوں نے سائنسی طریقہ کار اختیار نہیں کیا ، بس عدالت کی آنکھ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزیدکہا کہ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولس بس اضافی چارج شیٹ داخل کرنے میں مصروف ہے ، مقدمہ کی سماعت شروع کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، ملزمین جیلوں میں بند ہیں اور تاریخ پر تاریخ دینے سے عدالت کا قیمتی وقت برباد ہورہا ہے ۔عدالت نے مزید کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں ہونے والی تاخیر اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ پولس کانسٹبل نے گڑ بڑ ی کی ہے اور ملزمین کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں دہلی پولس کی جانب سے کی جانے والی غیر پیشہ وارانہ تفتیش پر سخت برہمی کا اظہار کیا ۔اسی دوران دہلی ہائی کورٹ نے بھی دوملزمین فرقان اور صالحین کی ضمانت منظورکرلی ہے ۔ اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہم تو پہلے دن سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ دہلی پولس نے جانبدارانہ تفتیش کی اور مسلمانوں کو گرفتار کیا، عدالت نے خود اس بات کو نوٹ کیا کہ دہلی پولس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے ۔ خصوصی جج کے تبصرے سے ہمارے موقف کو تقویت ملی ہے کہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی گرفتارکرلیا ، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دہلی فسادمیں جو مظلوم ہیں جس پر ظلم ہوا پولس نے اسے ہی ظالم اورمجرم بناکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جبکہ اس فسادکی سازش رچنے والے آج بھی آزادگھوم رہے ہیں۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ تفتیش اور گرفتاری کے نام پر قانون وانصاف کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں اس کی تصدیق عدالت کے اس سخت تبصرہ سے بھی ہوجاتی ہے کہ دہلی پولس کی اس ناقص تفتیش کے لئے دہلی فسادتاریخ میں یادرکھاجائے گا۔ واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پرماخوذ 92مسلم ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیںجمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کا پینل کل 139 مقدمے دیکھ رہا ہے۔