ہماری قیادت ۔۔۔ مسجد تک؟؟؟


ازقلم: مدثراحمد
ایڈیٹر: روزنامہ آج کاانقلاب، شیموگہ کرناٹک
9986437327


آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں میں اکثر یہ سوال گھومتا رہتاہے کہ مسلمانوں میں قیادت کیوں نہیں ہے،مسلمانوں کاکوئی قائد کیوں نہیں ہے اورمسلمان کیوں اتنے پسماندہ ہیں؟۔بہت سوچنے کے بعد ہمارے ذہن میں جو بات آئی ہےوہ یہ ہےکہ مسلمانوں کا کوئی قائد کہیں بھی نہیں ہےاور نہ ہی مسلمانوں نے اس جانب توجہ دینےکی ضرورت محسوس کی ہے۔دراصل مسلمانوں نے قیادت اور قائد کے معنوں کو سمجھنے کی جرات ہی نہیں کی ہے،یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ آج قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہوچکی ہے۔ ہماری اور آپ کی نظرمیں قیادت کے معنی ہیں ایم ایل اے بننا،ایم پی یا ایم ایل سی یا پھر کم از کم کارپوریٹر یا کائونسلر بنناہے۔ان تمام کے علاوہ قائد کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسجد کا صدر بننا یا پھروقف بورڈکا رکن یا صدر بنناہے۔اگر ان شعبوں میں ہماری قیادت دکھائی دیتی ہے تو ہم لیڈر یا قائد کہلاتے ہیں،ورنہ ہماری کوئی اوقات نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان قوم سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والی سب سے زیادہ پسماند ہ قوموں میں شمار ہونے والی قوم ہے۔ہم کونسی قیادت کی بات کررہے ہیں یہ سب سے پہلے سوچنے کی ضرورت ہے، بازاروں میں جائے تو وہاں مسلمان دکاندار ہونے کے باوجود دکانداروں کے اسوسیشن میں مسلمانوں کی قیادت نہ کہ برابرہے ،جو قوم سب سے کمتر یا کمزور مانی جاتی تھی اُس قوم کے لوگ آج مسلمانوں پر راج کررہے ہیں، مارواڑی،برہمن،دلت و جین جیسی قومیں آج تجارت کے شعبے میں اپنا پرچم لہراچکے ہیں اور مسلمان جن کے یہاں تجارت سب سے برکت والی اور سُنت مانی جاتی ہے اُس تجارت کوکرنے والے مسلمان سب سے پیچھے ہیں۔ڈاکٹری کا پیشہ لیں یا انجینئرنگ کا شعبہ،ہر جگہ پر مسلمان رہ کر بھی آگے نہیں بڑھتے اور وہ اپنی لیڈر شپ کو پیش کرناہی نہیں چاہتے۔جبکہ دوسروں کے یہاں ایسے حالات بالکل بھی نہیں ہوتے، دوسری قومیں اپنے ایک فرد کو لیکر یا ایک فرد اپنی پوری قوم کو لیکر قیادت کرتا رہتا ہے،جس کے نتیجہ میں قیادت کا ایک ایسا چین لنک قائم ہوتا ہے کہ لوگ اس چین لنک سے اپنے وجود اور قیادت کو چوٹی پر پہنچا دیتے ہیں۔بتائیے کہ کیاانڈین میڈیکل اسوسیشن میں مسلمانوں کی قیادت ہے؟کیا جرنلسٹ اسوسیشن یا پریس گلڈ آف انڈیامیں مسلمانوں کی نمائندگی ہے؟کیا انجینئرس اسوسیشن میں مسلمان لیڈر بننا تو دور کم ازکم ممبر شپ لئے ہوئے ہیں؟چیمبر آف کامرس میں کتنے مسلمان سرگرم ہیں؟۔وکلاء تنظیموں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح کیاہے؟۔سرکاری ملازمین تنظیموں میں مسلمانوں کی نمائندگی کیا ہے، اگر ہے بھی تو کتنے اراکین الیکشن کے ذریعے سے آتے ہیں اور کتنے منتخب ہوکر آتے ہیں؟۔یونیورسٹیوں سے لیکر پرائمری اسکولس تک کہ تعلیمی اداروں کا کیاکوئی آیکٹیو ادارہ ہے؟کتنے مسلمان سائنس کےمیدان میں نمائندگی کررہے ہیں؟یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کا پوری قوم کے پاس جواب نہیں ہے، ہر کوئی احساس کمتری کا شکارہے،اگر کسی کے سامنے یہ کہہ جائے کہ ہم تمہیںلیڈر بناناچاہتے ہیں تو ہر ایک کی سوچ گرام پنچایت، تعلق پنچایت، میونسپل کائونسل، کارپوریشن یا ایم ایل اے کی ٹکٹ پرجا کھڑی ہوتی ہےاور ہرکوئی صرف اور صرف سیاسی میدان میں ہی لیڈر بننا چاہتے ہیں۔یہ تمام زمرے چھوڑئیے ،ہمارےجو شرعی قائد ہیں انہیں ہی ہم قائد ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں اور وہ خود بھی اپنے آپ کو محدودکئے ہوتے ہیں۔دراصل آج اُمت کو ایم ایل اے،ایم پی،کارپوریٹرس کی اشد ضرورت نہیں ہے ،سڑکیں بنانا،کچراصاف کرنا،پانی مہیاکرنایہ کام تو کوئی بھی کرسکتا ہے،اگرایم ایل اے، ایم پی یا کارپوریٹر نہ ہو تو تب بھی پینے کا پانی ملتا ہے،سڑکیں صاف رہتی ہیں،اصل ضرورت تو ہمارے اپنے مسائل کو حل کرنے والے لوگوں کی ہے۔اگر ایسے لوگ ہمارے درمیان پیدا ہونے لگے گیں تو یقین جانیے کہ اُمت مسلمہ کو قیادت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔جب ہر شعبہ سے ایک قائد بن کر نکلتا ہےاور ہر شعبے کے لوگ اپنے درمیان والوں کو قائد ماننے لگیں گے تو یقیناًہمارے درمیان ایم ایل اے ایم پی بنانے کی خودبخود طاقت آجائیگی۔ اس کیلئے ہمیں بنیادی سطح پر کام کرنا ہوگااور یہ بنیادی سطح تعلیمی میدان سے شروع ہوتی ہے اور تعلیم کو ہی ہماری زندگی کا مقصدبناناہوگا۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے