ہندوستان جمہوری ملک ہے، اس میں آئین کو بالا دستی حاصل ہے، ہم آئین کی روشنی میں باوقار زندگی گذاریں


ہندوستان ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذاہبِ کے ماننے والے بستے ہیں ، اس طرح یہ ایک حسین گلدستہ ہے ،جس میں ہر مذہب کے ماننے والے ہزاروں برس سے رھتے آرہے ہیں ، آپسی پیار و محبت ، قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری میں یہ ملک ہمیشہ مثالی رہا ، جب کبھی بھی کسی نے اس کی طرح غلط نظر سے دیکھا تو سبہوں نے مل کر مقابلہ کیا ، انگریزی حکومت کے خلاف تحریک آزادی میں سبھی کا مل کر حصہ لینا اس کی ایک مثال ہے ،
انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانا بہت ہی مشکل تھا ، جب ملک میں رھنے والے تمام طبقہ کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ کی تو اس میں انہیں کامیابی ملی اور ملک آزاد ہوا ، اور ملک میں آئین کی حکومت قائم ہوئی
ملک کا آئین ملک میں بسنے والے ہر طبقہ کے لوگوں کو مساوات کا حق دیتا ہے ، مذہبی آزادی کا حق ، جان ،مال ،عزت و آبرو کی حفاظت کا حق ، تعلیم اور زبان کی حفاظت کا حق ، اور تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ھے ، ان کے علاؤہ اور بھی حقوق ہیں ، جو آئین میں مذکور ہیں ، یہی نہیں ،بلکہ کسی قسم کی حق تلفی پر حکومت کو باخبر کرنے اور آواز اٹھانے کا حق بھی ملک کے آئین میں دیا گیا ھے ، حق تلفی کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کا بھی حق دیا گیا ،یہ حقوق اس لئے درج کئے ہیں ،تاکہ لوگ بے خوف ہوکر رہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں
ملک کی آزادی کے بعد ملک میں خوشگوار ماحول قائم ہوا ، سب آپسی میل محبت اور بھائی چارہ کے ماحول میں رہنے لگے ، ملک میں امن و شانتی کا ماحول قائم رہا ، ادھر چند برسوں سے کچھ غلط عناصر کے ذریعہ ملک میں اقلیت اور اکثریت کے معاملہ کو اٹھایا گیا ،اور اس کو اس زور سے پھیلایا گیا کہ ملک میں نفرت کا ماحول قائم ہوگیا ، اور آپسی میل و محبت کا ماحول ختم ہوتا نظر آرہا ھے ،جس کی وجہ سے ملک کی مثالی گنگا جمنی تہذیب متاثر ہوتی نظر آرہی ھے ، جو سب کے لئے نقصاندہ ھے ، مگر اللہ کا فضل ھے کہ برادران وطن میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو صاف ستھرے شبیہ کے ہیں ، اور آپسی میل محبت کے ساتھ رھنا پسند کرتے ہیں ، اور نفرت کے ماحول سے بیزار ہیں
موجودہ وقت بہت نازک ہے ، اس لئے اس کی ضرورت ہے کہ نفرت کے ماحول کو کم یا ختم کرنے کے لئے آپسی میل محبت ، قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے ، سیکولر برادران وطن کے ساتھ مل کر آپسی بھائی چارہ کو مضبوط کیا جائے ، دین و شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے کام کیا جائے ،
موجودہ وقت میں حالات ضرور تشویشناک ہیں ، مگر ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے ہیں کہ دین و شریعت میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی ضرورت پیش آئی ھو ، چونکہ ملک میں آئین کی حکومت ہے ، جس کے ذریعہ آزادی فراہم کی گئی ھے ، ایسے وقت میں ہمیں ایک باوقار شہری کی حیثیت سے آئین اور قانون کی روشنی میں اپنے مسائل کو حل کرنا چاہئے ، ہر وقت ملک کے آئین ،قانون اور اپنے تحفظ کو پیش نظر رکھنا چاہئے ، خاص طور پر دینی امور میں گنجائش سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے ، لیکن اس کا دائرہ اتنا نہ بڑھایا جائے کہ شرعی حدود میں داخل ہو جائے ، اور دوسروں کو اس سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع مل جائے
ہر زمانہ میں مسلمانوں کو ان کے آپسی انتشار سے نقصان پہنچا ھے ، موجودہ وقت میں یہ زیادہ دیکھنے میں آرہا ھے ، اس آپسی انتشار سے دوسروں کو فائدہ حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ھے ، آج مسلمانوں کو بے وزن اور بے حیثیت بنانے میں اس کا بھی بہت دخل ھے ،
اسلام ایک امن پسند مذہب ہے ، اس نے مساوات اور اخلاقیات کی تعلیم دی ھے ، اس کی تعلیمات نے پوری دنیا کو متاثر کیا ھے ، اس کو برادران وطن کے درمیان عام کرنے کی ضرورت ھے ،
ملک کے موجودہ ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ھے ، کوئی ایسا کام نہ کریں جو ملک کے آئین کے خلاف ہو ، البتہ صوبائی قانون مختلف ہیں ، کہیں سختی ھے تو کہیں رعایت ھے ، کوئی بھی کام کرتے وقت ملکی اور صوبائی قانون کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ھے ، بہر حال خطرات سے حفاظت اپنی ذمہ داری ھے ، لیکن دفاع اور قانونی چارہ جوئی آئینی حق ہے ،
ابھی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوا ھے ، اس موقع پر بہت سے رسومات ادا کئے جاتے ہیں ،ایسے موقع پر ضروری ھے کہ ہم آئین اور قانون کے دائرہ میں کام کریں ، مقامی انتظامیہ سے اجازت حاصل کریں ، بغیر اجازت کے کوئی کام نہ کریں ، اجازت مل جائے تو اس کی روشنی میں کام کریں ، میل محبت سے رہیں ، آپس میں جھگڑا تکرار سے بچیں ، کوئی ایسا کام نہ کریں ،جس سے کسی کو تکلیف پہنچے اور ہم اور اپ خود بھی دشواری میں پڑیں ، اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے
ویسے اللہ تعالی کا فضل و کرم ھے کہ صوبہ بہار میں امن و شانتی کا ماحول ھے ، انتظامیہ بھی چاق و چوبند ہے ، ہماری ذمہ داری ھے کہ ہم آپسی میل محبت کے ذریعہ انتظامیہ کے ذمہ داروں کو مضبوطی پہنچائیں ، اور ان کا تعاون کریں ، تاکہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسرے بھی محفوظ رہیں

( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی