ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ (النور :30)
” اے نبیؐ ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں _ یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے _ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے _”
یہ سورۂ نور کی ایک آیت ہے _ اس سورت میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جو کسی بھی سماج کی پاکیزگی کے ضامن ہیں ، مثلاً زنا اور قذف (بدکاری کا الزام لگانا) کی سزائیں ، لعان ( شوہر یا بیوی پر بدکاری کا الزام لگانا) کے احکام ، گھروں میں داخلہ کے آداب اور خواتین کے لیے پردہ کے حدود وغیرہ _ اسی ضمن میں اہلِ ایمان کے لیے یہ ہدایت دی گئی ہے ، جو بہت اہم ہے _
پہلا حکم یہ دیا گیا ہے : يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ ( اپنی نظریں بچا کر رکھیں) _ عربی زبان میں لفظ ‘غَضَّ’ کا معنیٰ ہے کسی چیز کو کم کرنا ، گھٹانا اور نیچا کرنا ۔ اس کے چند استعمالات یہ ہیں :
- غَضَّ طَرفَه أو بَصَرَه = نگاہ جھکانا _
- غَضَّ صَوتَه = آواز پست رکھنا _
- غَضّ الغُصنَ = ٹہنی کو توڑ دینا
- غَضَّ الشَّيء = کم کرنا
- غَضَّ منه = شان اور قدر و منزلت گھٹا دینا _
قرآن مجید میں آواز کی پستی اور نگاہ کی پستی دونوں کے لیے اس لفظ کا استعمال ہوا ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَهُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ لِلتَّقۡوٰى (الحجرات : 3)
"جو لوگ اللہ کے رسول کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوٰی کے لیے جانچ لیا ہے ” وَٱقۡصِدۡ فِی مَشۡیِكَ وَٱغۡضُضۡ مِن صَوۡتِكَۚ إِنَّ أَنكَرَ ٱلۡأَصۡوَ ٰتِ لَصَوۡتُ ٱلۡحَمِیرِ ( لقمان : 19) ” اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔”اس آیت (النور :30) میں یہ لفظ نگاہ کو پست رکھنے کے لیے آیا ہے _ عربی شاعری میں بھی اس کا استعمال ملتا ہے _ جاہلی شاعر عنترہ نے کہا ہے : وأغُضُّ طَرَفِي ما بَدَتْ لِي جارَتِي حَتَّى تُوارِيَ جارَتِي مَأْواها
” میری پڑوسن کا جسم اگر کھلا رہتا ہے تو میں اپنی نگاہ جھکا لیتا ہوں ، یہاں تک کہ وہ اپنی قیام گاہ میں پہنچ جاتی ہے _”
اموی شاعر جریر کہتا ہے :
فَغُضَّ الطَّرْفَ إنَّكَ مِن نُمَيْرٍ
فَلا كَعْبًا بَلَغْتَ و لا كِلابًا
” اپنی نگاہ جھکا کر رکھو ، تم قبیلہ نمیر سے ہو ، تم کعب اور کلاب نامی قبیلوں کے مرتبے کو کہاں پہنچ سکتے ہو؟ ”اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں _ اس سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اسے نہ دیکھیں ، چاہے نگاہ نیچی کرکے یا کسی اور طرف پھیر کر _ آگے 'مِنْ اَبْصَارِھِمْ' کہا گیا ہے _ عربی گرامر میں 'مِنْ' کی ایک قسم تبعیضیہ ہے ، یعنی یہ جس لفظ سے قبل آتا ہے اس کا بعض حصہ مراد ہوتا ہے _ یہاں يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ کہا گیا ، یعنی بعض نگاہیں _ چوں کہ لوگوں کے لیے آنکھیں مستقل بند رکھنا اور مکمل نظر بچا کر رکھنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے انہیں اس کی رعایت دی گئی ہے اور انہیں بس اپنی بعض نظروں کو بچانے کا مکلّف کیا گیا ہے ۔ آیت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ کن چیزوں سے نگاہیں بچا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ لیکن سیاق و سباق سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے _ اس آیت میں خطاب مومن مردوں سے ہے _ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں ، دوسروں کے ستر پر نگاہ نہ ڈالیں اور فحش مناظر پر نگاہ نہ جمائیں _ اچانک اچٹتی ہوئی نظر پڑ جائے تو معاف ہے ، لیکن گھور گھور کر دیکھنا اور بار بار نظر ڈالنے کی اجازت نہیں _ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
يَا عَلِيُّ، لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ ؛ فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ (ابوداؤد : 2149 ، ترمذی : 2777)
” اے علی ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ۔ پہلی نظر تو معاف ہے ، مگر دوسری معاف نہیں _ ” حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا : اچانک نگاہ پڑجائے تو کیا کروں؟ فرمایا : فوراً نگاہ پھیر لو _ (مسلم : 2159) حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت آپ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی ﷺ نے ان کے چہرےپر ہاتھ رکھ کر اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد : 1905) ۔ اسی موقع پر قبیلۂ خَثْعَم کی ایک عورت راستہ میں حضور ﷺ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ دریافت کرنے لگی اور فضل اس عورت کو دیکھنے لگے _ آپ نے ان کا چہرہ دوسری طرف کردیا ۔ (بخاری : 1855)دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے : وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ (اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں) نگاہوں کی حفاظت اور شرم گاہوں کی حفاظت ، دونوں میں گہرا تعلق ہے _ بدکاری کے ارادے کا آغاز نگاہوں سے ہوتا ہے ، کوئی چیز آنکھوں کو بھا جاتی ہے _ بعد میں کان ، زبان ، ہاتھ ، پیر وغیرہ اس میں حصہ لیتے ہیں _ دل میں امڈنے والے جذبات جوش مارتے ہیں _ اس کے نتیجے میں انسان کے بدکاری میں ملوّث ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے _ یہ بات ایک حدیث میں کہی گئی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
العينانِ زناهما النظرُ ، والأذنانِ زناهما الاستماعُ ، واللسانُ زناه الكلامُ ، واليدُ زناها البطْشُ ، والرِّجْلُ زناها الخطا ، والقلْبُ يهوى و يتَمَنّى ، يصدِّقُ ذلِكَ الفرجُ ويكذِّبُهُ ( بخاري : 6243 ، مسلم : 2657)
” آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔ کانوں کا زنا سننا ہے _ زبان کا زنا بات کرنا ہے ۔ ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے _ پیروں کا زنا چلنا ہے ۔ دل خواہش اور تمنّا کرتا ہے _ آخر میں شرم گاہ یا تو اس گناہ کو مکمل کردیتی ہے ، یا اسے مکمل کرنے سے باز رہتی ہے _”تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ طریقہ اہلِ ایمان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے _ نگاہ کی حفاظت عزّت و آبرو کی حفاظت اور بے حیائی و فحّاشی سے نجات کی ضامن ہے _ اگر وہ بدنگاہی سے بچیں گے تو انہیں پاکیزگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق ملے گی _ چوتھی اور آخری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ " جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے _" یہ بات سخت تنبیہ کے الفاظ میں کہی گئی ہے _ یہ کہا گیا ہے کہ بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہیں _ اس کے کارندے ہر شخص کی اچھائیاں اور برائیاں سب نوٹ کررہے ہیں _ وہ کھلی روشنی (limeligh t) میں ہے _ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور اس کی تمام حرکات و سکنات ریکارڈ کی جارہی ہیں _ اللہ تعالیٰ تو اتنی قدرتِ کاملہ کا مالک ہے کہ وہ ہرشخص کی نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور اس کے سینوں میں چُھپے ہوئے رازوں سے بھی واقف ہے _ قرآن مجید میں قیامت کی منظر نگاری کرتے ہوئے یہ بات صراحت سے کہی گئی ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَوۡمَ هُمۡ بَارِزُوۡنَۖ لَا يَخۡفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنۡهُمۡ شَىۡءٌ ؕ لِمَنِ الۡمُلۡكُ الۡيَوۡمَ ؕ لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ ۞اَلۡيَوۡمَ تُجۡزٰى كُلُّ نَـفۡسٍۢ بِمَا كَسَبَتۡ ؕ لَا ظُلۡمَ الۡيَوۡمَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ ۞وَاَنۡذِرۡهُمۡ يَوۡمَ الۡاٰزِفَةِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَى الۡحَـنَاجِرِ كٰظِمِيۡنَ ۚ مَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ حَمِيۡمٍ وَّلَا شَفِيۡعٍ يُّطَاعُ ۞يَعۡلَمُ خَآئِنَةَ الۡاَعۡيُنِ وَمَا تُخۡفِى الصُّدُوۡرُ ۞(مومن :16_19)
” وہ دن جب سب لوگ بے پردہ ہوں گے ، ان کی کوئی بات اللہ سے چھُپی ہوئی نہ ہوگی ۔ (اُس روز پکار کر پُوچھا جائے گا) آج بادشاہی کس کی ہے؟ (سارا عالم پکار اُٹھے گا)اللہ واحد قہّار کی _ (کہا جائے گا) آج ہر متنفّس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کی تھی ۔ آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔ اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔ اے نبیؐ ! ڈرا دو اِن لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آلگا ہے ۔ جب کلیجے مُنہ کو آرہے ہوں گے اور لوگ چُپ چاپ غم کے گھُونٹ پیے کھڑے ہوں گے ۔ ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہوگا اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے ۔ اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھُپا رکھے ہیں _”کون نادان ہوگا جو یہ سب جانتے ہوئے نگاہوں کی آوارگی میں مبتلا ہو؟ کون احمق ہوگا جس کی ایک ایک حرکت ریکارڈ کی جارہی ہو ، پھر بھی وہ لاپروائی سے الٹی سیدھی حرکتیں کرے؟؟ کون بے توفیق ہوگا جسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کو دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات اور آنکھوں کی خیانتوں کا بھی علم ہوجاتا ہے ، پھر بھی وہ اپنے دل کو بُرے خیالات کی آماج گاہ بنائے اور نگاہوں کی آوارگی میں مبتلا ہو؟؟؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے ، آمین _
[ تذکیر ، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کیمپ ، ناندیڑ ( مہاراشٹر) ، 11 ستمبر 2021 ]