تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب سرور کونین کی بعثت نہیں ہوئی تھی ہر طرف کفرو الحاد کا دور دورہ تھا، برائیاں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، گھر گھر آلائشوں کی ایک دنیا آباد تھی، زمین کا ذرہ ذرہ جنس پرستی ہوس رانی، حق تلفی ، ناانصافی قتل و غارت گری کی دہائی دے رہا تھا، ایسے میں اگر کوئی پاک جگہ تھی تو وہ خانہ کعبہ تھی جس کو کہ خدا کے دو برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے بحکم خدا تعمیر کی تھی حالانکہ اس میں بھی تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، بیت اللہ کی جو خوبیاں تھیں وہ کسی سے مخفی نہیں تھیں ہر ایک کے دل میں اس کی عظمت پیوستہ تھی،اوردنیا کے گوشے گوشے سے لوگ اس کی طرف کوچ کرتے تھے، اس کے جو متولی ہوتے نسبتاً ان کی بھی قدر کی جاتی اور نگاہوں میں وہ محبوب ہوتے ، اس کی غظمتوں کو دیکھتے ہوئے کسی کی نظر لگنا ضروری تھا چنانچہ ابرہ نامی شخص جو بیت اللہ کی گونا گوں خوبیوں سے حسد کی آگ میں جل رہا تھا اس نے ارادہ کیا کہ کیوں نہ اس گھر کو مسمار کردیا جائے اور اس سے عالیشان محل اپنے ملک میں تعمیر کیا جائے تاکہ لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں اور اسی کی طرف لوگ کوچ کریں جس سے اس کے ملک کا وقار بلند ہوگا یہی سوچ لئے ہاتھی 🐘 کا ایک لشکر جرار لیکر نکلا دل ❤️ میں بیت اللہ کو مسمار کرنے کا ارادہ لئے منزل بہ منزل بڑھ رہا تھا جب یہ خبر مکہ پہنچی کہ آج بیت اللہ کا آخری وقت ہے تو وہاں کے لوگوں میں ایک کھلبلی مچ گئی چونکہ وہ بے سہارا تھے ان کے پاس طاقت و قوت اس قدر نہیں تھی کہ اس لشکر کا مقابلہ کرسکے لیکن خدا پر یقین تھا بیت اللہ کو اللہ کے حوالے کردیا اور خود پہاڑ پر چڑھ گئے پھر ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی خود حفاظت کی اور اس لشکر کو ابابیل نامی پرندوں سے ہلاک کردیا، یہاں پر اللہ کی غیبی مدد آئی کیونکہ اللہ پر ان کا ایمان راسخ تھا عبد المطلب نے تو بیت اللہ کی جالی پکڑ کر یہ کہا کہ ۔۔۔ خدا یہ تیرا گھر ہے تو ہی اس کی حفاظت فرما۔۔ یہ جملہ صرف زبانی طور پر نہیں کہا تھا بلکہ دل میں پختہ یقین تھا کہ اللہ ضرور مدد گریگا اور پھر جو ہوا سب نے دیکھا،
اس تناظر میں ہم اپنے ارد گرد دیکھیں خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارے دل میں ایمان کس قدر مضبوط ہے ہمارے دل میں ایمان کے ساتھ شک بھی کار بند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دربار الہی میں فریاد کرتے ہیں لیکن ہماری سنی نہیں جاتی، جب ہمارا ایمان شک اور تذبذب کے ساتھ مربوط ہوا تو پھر ہر طرح کی مصیبتوں نے ہمیں آدبوچا ہم میں طرح طرح کی برائیاں پنپنے لگیں عبادتوں سے شوق ختم ہوگیا ، احکام شریعت سے پہلو تہی برتنے لگے، خدا و رسول کی محبت سے دامن جھاڑ لیا گویا مکمل طور سے ہم باغی ہو گئے اور جب اپنی ہی شریعت سے بغاوت کی تو ہر طرف سے دبوچ لئے گئے، ہماری تشخص کو پامال کیا جانے لگا ، مسجدوں کی مسماری شروع ہوگئی، مدرسوں پر الزامات آنے لگے، قرآن کو مٹانے کی سازشیں شروع ہو گئیں، ہماری بہن بیٹیوں کی عفت و عصمت پر ڈاکہ زنی کی جانے لگی، ہمارے جوانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جانے لگا الغرض ہماری مظلومیت کی ایک تاریخ رقم کی جارہی ہے، ان تمام مظلومیت کے باوجود بھی ہمارے قلوب میں ذرہ برابر بھی ایمانی تپش نہیں آئی کہ جس کی سینک ایمان تک پہنچے اور پھر ہمیں کچھ ہوش آئے، ہماری ہٹ دھرمی اب بھی قائم ہے اب بھی ہم منہیات میں اڑے ہوئے ہیں اور غیبی مدد کے منتظر ہیں،
اللہ کی مدد اللہ کی اللہ کی خوب نعرہ بازی ہوتی کبھی اگر دعا کیلئے ہاتھ ✋ اٹھ جاتی ہے تو بھی المدد المدد پکارتے ہیں لیکن یہ صرف زبانی طور پر ہوتا ہے دل کہیں اور لگا ہوا ہوتا،
ایک غیر کے دل میں پختہ ایمان تھا تو بیت اللہ کی حفاظت ہو گئی ہاتھی 🐘 کا لشکر جرار تباہ ہوگیا آج ہم کروڑوں کی تعدا میں ہیں لیکن اس جیسا منظر دیکھنے کو نہیں ملا اور ملے بھی کیسے دل میں ابرہ کی طرح نفرت پنپتی ہے اگر دل کی یہی کیفیت رہی تو ڈر ہے کہیں ہمارا بھی حشر ایمان کے باوجود وہی نہ ہو جو اس نفرتی دل کے ساتھ ہوا تھا،
اس لیے ضرورت ہے اس ناگفتہ بہ حالات میں کہ ہم اپنے دل کی دنیا کو آباد کریں عشق مولا کو پہلے ترجیح دیں اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مدد کی امید لگائیں تاکہ ہمیں چین و سکون نصیب ہو،