ہیش ٹیگ مولانا

ازقلم: مدثراحمد،شیموگہ۔کرناٹک
9986437327

مولانا کلیم صدیقی،مولانا عمر گوتم جیسے جید علماءکی گرفتاری کے بعد سوشیل میڈیا سمیت مختلف پلاٹ فارموں پر الگ الگ رائے و خیالات پیش کئے جارہے ہیں۔اہل علم سے لیکر اہل اقتدار تک موجودہ حالات کے تعلق سے فکرمندہیں۔لیکن ایسا لگتاہے کہ دانشوران واہل علم حضرات کی فکر صرف سوشیل میڈیا تک ہی محدود ہوچکی ہے اور پوری قوم لائک شئیر کمنٹ میں مصروف ہوچکی ہے اور بعض موقعوں پر ایسا لگ رہاہے کہ قوم اپ گریڈ ہوچکی ہے۔پہلے سیاسی ،مذہبی و مسلکی اور ملی معاملات کے چرچے چائے کی دکانوں،نکڑوں اورگلی محلوں میں اور زیادہ سے زیادہ شادی بیاہوں میں ہواکرتے تھے،لیکن اپ گریڈ ہونے والی قوم ان معاملات پر اب بحث ومباحثے وچرچے سوشیل میڈیاکے فیس بک ،واٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسے پلاٹ فارم پر کررہی ہے اور بعض تو اس قدر سوشیل میڈیا پر اس قدر شدت اختیارکرلیتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ اس ویڈیو کو اتنا شیئر شیئر کرو کہ حکومت دہل جائے اور گرفتارہونے والے عالم رہا ہوجائے۔ہیاش ٹیگ مولانا۔یہ تو بھلا ہواکہ1947 سے پہلےبھارت میں انٹرنیٹ،موبائل ،کمپیوٹر،فیس بک ،واٹس ایپ اور ٹویٹر اکائونٹ نہیں تھے،اگر یہ سوشیل میڈیا پلاٹ فارم اُس وقت بھی موجودتھے تو آج تک ہم بھارتی انگریزوں کے چنگل سے آزادنہ ہوئے ہوتے ،کیونکہ ہم آزادی کی لڑائی میدانوں،ایوانوں میں،گلیوں،لال قلعے میں ،جلیاں والاباغ میں،پلاسی کی جنگ میں نہ لڑتے اور نہ ہی انگریزوں کو تحریک ریشمی رومال،کوئٹ انڈیا مومنٹ ،مکمل آزادی اور نمک ستیہ گرہ کے علاوہ علماء کی کالے پانی کی سزائوں کے معاملات واحتجاجات سامنے نہیں آتے۔افسوس صدافسوس کہ آج مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں،مسلمانوں کے علماء جیلوں میں بند ہورہے ہیں ،دین کی دعوت دینے والے علماء کو دہشت گرد قراردیاجارہاہے،حق وباطل کی لڑائی میں دانشوران باطل کاساتھ دے رہے ہیں۔حکمت کے نام پر چوری چھپےفاسق طاقتوں سے ملاقاتیں ہورہی ہیں اور ان ملاقاتوں کو ان کے حواری یہ کہہ کر بچانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ تو ذاتی ملاقات تھی،کہنے کو کوئی بات نہیں تھی۔چندہ خور ودھندہ کرنے والے اہل علم محفوظ ہیں اور اس قدر محفوظ ہیں کہ انہیں حکومتوں سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے،کیونکہ حکومتوں کی طرفداری چاپلوسی ان کا شیوہ بن چکاہے۔بھارت میں اس وقت جو حالات ہیں اُن حالات کو مدِنظررکھتے ہوئے اگر صف اول کے دانشوران وعلماء محض جیل بھرنے کیلئے ایک آوازصرف اترپردیش جیسی ریاست میں لگاتے توشائد سارے ملک میں حکومتیں ہل جاتیں۔کسی صاحب نے سوشیل میڈیامیں یہ کہاہے کہ قلمکار،ولکھاری وصحافی صف اول کے علماء پر الزامات لگانابندکریں ،کیونکہ صف اول کے علماء اپنے طو رپر کام کررہے ہیں۔یقیناً کام کررہے ہونگے،لیکن کیا دہلی میں بیٹھے ہوئے کسان پاگل ہیں جو اپنے حق کی لڑائی کیلئے پچھلے 9 مہینوں سے احتجاج کررہے ہیں اور اپنے احتجاج کو ہر دن سخت موڑ دے رہے ہیں،کیا وہ احتجاجی کسان عدالتوں میں مقدمے نہیں لڑرہے ہیں،کیا انہیں قانون نہیں معلوم؟۔احتجاج بھی آئین کا حصہ ہے اوراحتجاج کرنے سے جمہوری ملک کی کوئی حکومت نہیں روک سکتی۔آخر یہ کونسا ڈروکونسا خوف کھایاجارہاہے جوصف اول کے قائدین مسلمانوں کی مناسب قیادت کرنے کیلئے آواز دینے کے بجائے پریس ریلیز،مذمتی بیان،ہیاش ٹیاگ اور زیادہ سے زیادہ ویڈیوپر صبرکی تلقین کا پیغام دے رہے ہیں۔ان سے تو وہ گوجر،دلت اور آدی واسی بہتر نظرآرہے ہیں جو اپنے حقوق کیلئے لاٹھی،ڈنڈے وسینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔کیا مسلمان اس قدر ڈرپوک ہوچکے ہیں کہ دستورکے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنے سے گریزکررہے ہیں۔اصلاح معاشرے کے نام پر ہمارے جلسوں میں20-10 ہزار لوگ تو ایسے ہی جمع ہوجاتے ہیں،اجتماعات میں لاکھوں کی تعداددکھا کریہ کہاجاتاہے کہ یہ دیکھیں کہ اللہ کی راہ میں نکلنے والے لوگ ہیں،میلادکے جلسوں میں ہزاروں کی تعدادمیں لوگ جمع ہوکر نبیﷺکی شان میں نکالےجانے والے جلوس کی بات کرتےہیں۔لیکن جب نبیﷺکی اُمت پر آنچ آئی ہے،اصلاح معاشرے کی الف ب سکھانے والے علماء جیلوں میں بند ہورہے ہیں تو کہاں چلے جاتے ہیں یہ قائدین،شعلہ بیان، یہ شمشیرِاسلام ،یہ مبلغِ پیغام اورمجاہدین مسلک؟۔صرف ایک پُکار ،ایک آواز قوموں میں بیداری لاسکتی ہے،جنہیں ہم ہمارے مرکزی ومراکز کہتے ہیں اُن کی طرف سے ایک ایک للکار حکومتوں کو ہلانے کیلئے کافی ہے۔جس طرح سے بنی اسرائیل نے خداکے عذاب کاانتظارکیاتھا،اُسی طرح سے شاید مسلمان مہدی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے منتظرہیں،کیونکہ اب تو کوئی محمدبن قاسم اور سلطان صلاح الدین ایوبی بننے سے تو رہ گیا!۔یوگی مودی سے ہمارا قائد ڈرگیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے