نوجوانوں کے لیے چیلنج

ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ کرناٹک۔9986437327

جب بھی یو پی ایس سی کے نتائج کااعلان ہوتاہے تو سب سے پہلے مسلمان یوپی ایس سی کے نتائج کی فہرست میں یہ بات کو تلاش کرتےہیں کہ کتنے مسلمان اس امتحان میں کامیاب ہوئے،کتنے یو پی ایس سی کے امتحان کے ذریعے سے آئی اے ایس،آئی پی ایس،آئی ایف ایس،آئی آر ایس اور آئی آرٹی ایس جیسے محکموں میں خدمات انجام دینے کیلئے تیارہوئے ہیں۔پچھلے 20 سالوں کاجائزہ لیاجائے تو سال2021 میں ہی سب سے کم مسلم امیدوار یو پی ایس سی کےا متحان میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے اوسطاً40 مسلم امیدوار یو پی ایس سی کے ذریعے سے خدمات کیلئے منتخب ہورہے تھے۔پچھلے سال جب اُمید سے بڑھ کر مسلم امیدواروں نے یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی تو فرقہ پرست طاقتوں نے باوال کھڑاکیاتھاکہ بھارت میں یو پی ایس سی جہاد چل رہاہے اور مسلمان سرکاری عہدوں پر فائزہوکر غیر مسلموں کو نشانہ بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔سدرشن نامی ایک ٹی وی چینل نے اس سلسلے میں ایک پروگرام بھی چلایا تھا،جسے بعدمیں عدالتی حکم پر معطل کردیا گیا۔ممکن ہے کہ پچھلے سال کے پروپگنڈے نے اس دفع سرکاری سطح پر کچھ ہلچل پیداکی ہواور قابل مسلم نوجوانوں کو اس امتحان میں ناکام کیاگیا ہے، قوی امکانات یہ ہیں کہ یو پی ایس سی میں ابھی تک اس قدر زہرنہیں پھیلاہے کہ ذات پات کی بنیاد پر امیدواروں کاتقرر ہو، پھر بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔جب عدلیہ میں بابری مسجد کا فیصلہ جذبات کی بنیاد پر اور گائے کو قومی جانور بنانے کی بات کی جارہی ہے تو یو پی ایس سی میں بھی کچھ ردوبدل یا افکارمیں تبدیلی آسکتی ہے۔اب سب سے بڑا چیلنج مسلمانوں کیلئے ہے، دیکھاجائے تو یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا نہایت آسان ہے،کیونکہ یہ امتحان عام معلومات اور عام صلاحیتوں کی بنیادپر منحصر ہوتاہے۔جتنی محنت انجینئرنگ،ڈاکٹری یا پی ایچ ڈی کیلئے کی جاتی ہے اُس سے ایک تہائی حصہ بھی محنت کرلی جائے تو یو پی ایس سی کاامتحان آسان ہوسکتاہے اور کامیابی کی 100 فیصد گیارنٹی ہوتی ہے۔عام طو رپر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم نوجوان جب ڈگری یا پی جی کرلیتے ہیں تو روزگارکی تلاش میں مارےمارے پھرتے ہیں،ایک دوسال یہ نوجوان روزگار کی تلاش میں گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ ان دوسالوں میں بہت کچھ کماسکتے ہیں۔اگر واقعی میں نوجوان اپنے مستقبل کوبہتر بناناچاہتے ہیں تو تین سال کی ڈگری یا پی جی کے بعد صرف 365 دن یو پی ایس سی امتحان کی تیاری کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں تو اپنی زندگی کے65 ویں سال تک کیلئے روزگارکو مضبوط کرسکتے ہیں اور یہ ایسا روزگارہے جس کی توقع ہر ماں باپ اور ہر رشتہ دار کرتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں یہ سوچ آچکی ہے کہ زیادہ پیسہ کمانا ہوتو بھارت میں ممکن نہیں،بلکہ بیرونی ممالک کارُخ کرناپڑیگا۔جہاں پر درہم،ریال ،دینار،ڈالر سے کروڑ پتی بن جائینگے،لیکن نوجوان اس بات سے بالکل بھی واقف نہیں ہیں کہ جتنے ڈالر یا ریال کمانے والے بیرونی ممالک سے بھارت آتے ہیں تو وہ چپراسی لیکر کلرک کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں یاپھر اپنے کام کو انجام دینےکیلئے پیسے یعنی رشوت دیکر کرواتے ہیں۔سوچئے کہ جب آپ کے پاس ڈگری ہے اور وقت ہے تو آپ اس وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے کیوں نہیں آئی اے ایس،آئی پی ایس کاامتحان لکھنے کیلئے آگے نہیں آتے۔ہمیں اُس وقت فخر ہوتی ہے جب قوم کا کوئی نوجوان یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیاب ہوتاہے۔حالانکہ اسکی کامیابی سے ہماری جیب نہیں بھرنے والی،نہ ہی قوم کی قسمت کھل جائیگی، لیکن اتنی تو اُمیدرہتی ہے کہ قوم کا نوجوان ہمارے لئے کم ازکم کچھ نہ کچھ کام کریگا۔ہمارے لئے نہ سہی دستورکے دائرے میں رہ کر ہر شہری کوانصاف دیں تو یہ تا قیامت تک ان کیلئے اجر کا سبب بن سکتاہے۔نوجوان دن بھرموبائل فون پر اپنی زندگی کوگذار ررہے ہیں،اگر اسی موبائل فون پر دن کے دوچار گھنٹے یو پی ایس سی امتحان کیلئے مختص کرتے ہیں تو یہ ان کیلئے کامیابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوسکتی ہے۔نوجوان کمتری کاشکار ہورہے ہیں،ایسے میں ملّی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی رہنمائی کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں اور نوجوانوں کو بھی کہیں کہ وہ اپنا پاسپورٹ نہ بنائیں، کیونکہ پاسپورٹ آتے ہی پیروں میں کھجلی شروع ہوتی ہے اور وہ ڈگری ہوتے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ آج کے دورمیں سرکاری نوکریوں میں چپراسی کی نوکری ہی کیوں نہ ہو،تنخواہ سے لیکر طاقت تک کیلئے اہم نوکری ہوتی ہے تو ایسے میں آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسربننے سے کیا فائدہ ہوگا اس کااندازہ لگائے جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے