(1239-1305 / 1823-1887)
غوث آعظمؒ کے خاندان کے امیر
نام جن کا ہے شاہ سید پیرؒ
(فتح محمد کوہیری)
رشد و ہدایت انسانی کے لیے ختم نبوت کے بعد ولایت ہی ایسا سلسلہ ہے جو کبھی منقطع ہونے والا نہیں۔ جمیع سکان دکن پر پروردگار عالم کا یہ فضل خاص ہے کہ یہ سلسلہ سرزمین دکن پر پوری آب و تاب کے ساتھ صدیوں سے جاری ہے چنانچہ ارض دکن ارکاٹ میں محمد پورارکاٹ علاقہ مدراس علم و فضل کا گہوارہ رہا ہے یہاں جگر گوشہ حضرت غوث الاعظم ؒ شیخ المشائخ زبدۃ العارفین حصرت شاہ سید عبدالرحیم حسینی القادریؒ کے گھر 1239ھ میں عمدۃ السالکین، زین الزاہدین، سرتاج الصالحین، پیشواء مصلحین، فخر کاملین، شیخ اہل حق الیقین، مدار المحققین عارف باللہ القدیر پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒ محققؔ کی ولادت باسعادت ہوئی کم سنی سے ہی آثار ولایت نمایاں تھے۔ آپ کے ننھیال کا تعلق سلطان العشاق حضرت سید ابو الحسن (ثانی) قادری قدس سرہ العزیز ورنگلی نبیرہ معشوق ربانی قدس سرہ العزیز عرس جاگیر ورنگل سے ہے۔ آپ کے حقیقی بڑے ماموں آفتاب علم و فضل ، ماہتاب اخلاص و عمل حضرت شاہ سید احمد قادری الملتانی المعروف نکتہ نماؒ محرمؔ جو ابو الفتح حضرت مخدوم محمد ملتانی پاشاہ قادری بیدریؒ کے سلسلہ بیعت و خلافت سے وابستہ تھے، نے حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒکو علم تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف اور منازل سلوک طئے کرواکر فلک عرفان کا درخشاں ستارہ بنادیا حضرت ممدوحؒکو آپ ہی سے بیعت و خلافت حاصل ہے۔ آپ کا شمار محدثین (بکسر الدال) کے علاوہ محدثین (بفتح الدال) یعنی محدث و ملہَم من اللہ میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالی بذریعہ الہام قرآن مجید کے معانی و اسرار سے مطلع فرماتا ہے۔ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ اپنے پیر و مرشد کی نظر کرم کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
مرشدِ محرمؔ نے جب نکتہ نمائی کی ہے
لعل و گہر پھر تو نکلیں یہ گھر سے میرے
حضرت نکتہ نما ؒمحرمؔ نے اپنی اکلوتی صاحبزادی حضرت سیدہ زیب النساء صاحبہؒ کو حضرت ممدوح ؒکی زوجیت میں دیکر اس رشتہ کو مزید تقویت بخشی ۔ حضرت شاہ سید احمد قادری الملتانی المعروف نکتہ نماؒ محرمؔ ایک کہنہ مشق ،زود گو اور قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ آپ کی دلکش اور عمدہ صوفیانہ شاعری میں فکری و احساسی عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔علاوہ ازیں آپ کی شاعری عشق کی روح سے لبریز نظر آتی ہے۔ حضرت شاہ سید شاہ علی حسینی القادری الملتانی ؒ حضرت شاہ سید امیر حسینی القادریؒ حضرت ممدوحؒ کے حقیقی بھائی تھے اول الذکر چھوٹے ماموں حضرت شاہ سید محمد قادری الملتانی ؒ کے خلیفہ تھے ترک وطن کرکے بجواڑہ تشریف لے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی جب کہ آبائی بیعت و خلافت والد بزرگوار سے آخر الذکر کے مقدر میں آئی جو اپنے آبائی وطن عزیز ملتان لوٹ گئے اور حضرت ممدوحؒ باطنی اشارہ پاکر بہ زمانہ رئیس دکن نواب ناصر الدولہ بہادر آصف جاہ چہارم 1259ھ محمد پور ارکاٹ سے حیدرآبادتشریف لائے اور زیرپل قدیم محلہ امام پورہ شریف رود موسی کے کنارے ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا رفتہ رفتہ آپ کے فیوض و برکات کا ظہور ہونے لگا اسی اثناء میں نواب میر پرورش علی خان کو ایک نامعلوم عارضہ لاحق ہوگیا۔ بہت سی تدبیریں کیں لیکن افاقہ نہ ہوا آپؒ کو عالم رویا میں حضرت ممدوحؒ کی شبیہ مبارک دکھائی گئی اور آپؒ سے شرف باریابی حاصل کرنے کا حکم دیا گیا یہ مژدہ سن کر نواب صاحب حاضر خدمت ہوئے اور صحت کاملہ و عاجلہ پائی۔ حضرت ممدوحؒ شہرت کے خوف سے نقل مقام کا ارادہ فرمایا ۔
جب نواب میر پرورش علی خان کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اور عوام الناس نے حضرت ممدوحؒ سے مسلسل دائمی سکونت اختیار کرنے کی درخواست کی ۔ پیکر عجز و انکسار حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒ نے بالآخر عرضداشت کو قبولیت کا درجہ بخشا ۔حضرت ممدوحؒ کی مستقل جائے سکونت کے لیے مکان کی تلاشی شروع ہوئی بالآخر ایک ایسا مکان دستیاب ہوا جو آسیب زدہ مشہور تھا جب حضرت ممدوحؒ کو اس کا علم ہوا تو فرمایا پہلے اللہ کے گھر کی تیاری اور ہماری آخری آرام گاہ کے لیے زمین فراہم کی جائے۔ حضرت ممدوحؒ کا اشارہ جس زمین پر قیام کاتھا اسی کی جانب اشارہ فرمایا اور حسن اتفاق سے یہ خطہ ارضی نواب مذکور ہی کی ملکیت تھی۔ نواب صاحب نے سکونتی مکان خریدنے اورآخری آرام گاہ کے لیے چبوترہ تعمیر کرنے اور اپنی ہی زمین پر مسجد بھی تعمیر کرنے کا پیشکش کیا۔ جب تعمیری کام پائے تکمیل کو پہونچا تو حضرت ممدوحؒ نے ہی مسجد کی قطعہ تاریخ کہی جو جامع مسجد امام پورہ شریف کی کمان پر کندہ کیا گیا تھا …
شکر حق پرورش علی خان ام کرد مسجد بنا چوچہ رفتہ سال تاریخ بے سر بدعت گفت ہاتف خانہ خدا گفتہ
جب آپ کے سکونتی مکان کے لیے مالک مکان سے فروختگی کی بات طئے ہوئی تو آپ خود وہاں تشریف لے جاکر بہ آواز بلند یہ حکم دیا۔ اے قوم اجنا ہم یہاں سکونت کے لیے آرہے ہیں تم یہاں سے چلے جائو اس کے بعد آپ نے وہاں قیام فرمایا اور یہی مقام ملتانیہ منزل درس معرفت کا گہوارہ بن گئی۔ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒکا طریقہ درس یہ تھا کہ طالب کو پہلے متبع شریعت بناتے پھر جو شخص اس کسوٹی پر کھرا اترتا اسے ہی تصوف کی تعلیم دیتے اور اس کے باطن کا تزکیہ فرماتے ۔آپ کے درس عرفان کا وقت موسم سرما میں بعد نماز تہجد ہوا کرتا تھا تاکہ آپ کی محفل نورانی و عرفانی میں وہی اشخاص شرکت کریں جن کی سیرت مکمل طور پر علم و عمل سے ہم آہنگ ہو وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرنے کے متحمل ہوں اور وَأَنَّہُمْ یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَترجمہ:۔ اور وہ کہا کرتے ہیں ایسی باتیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے کے زمرہ میں داخل ہونے سے اپنے آپ کو بچاسکیں۔ حضرت ممدوحؒ کے حلقہ درس میں تشنگان علم شریک ہوتے اور فیض پاتے۔ ایک شخص حاضر مجلس ہوکرآپ سے کہا میں ایک مرشد کامل کی تلاش میں ہوں حضرت ممدوحؒ نے فرمایا تمہارے پاس ولی کامل کی کسوٹی کیا ہے اس شخص نے کہا کرامت! حضورؒ نے تبسم فرماکر ارشاد فرمایا حقیقت میں مرشد کامل وہ ہوتا ہے جس کا کوئی فعل و عمل شریعت بیضاء کے مخالف نہ ہو ۔آپ ؒ نے چند لمحات سکوت اختیار فرمایا پھر تیز لہجہ میں فرمایا …
خدا ہونا تو آ نزدیک میرے
کرامت دیکھ جا بازی گروں میں
کرامت ہے یہی تحقیقِ محرمؔ
شریعت پر رہوں دیں پرور رہوں میں
مولانا حافظ امام شاہ محمد انوار اللہ فاروقی خان بہادر فضیلت جنگؒ بانی جامعہ نظامیہ (متوفی 1336-1918) کے صلاح و مشورہ پر حضرت شاہ سید محمد حسینی القادری الملتانیؒ المعروف بہ حاجی صاحب، بانی اسلامیہ کالج ورنگل (متوفی 1338/1920) نے پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒمحققؔ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور داخل سلسلہ عالیہ قادریہ ملتانیہ ہوئے۔ حضرت ممدوحؒ کی تصانیف منیفہ میں سن 1262/1846 میں بہ زبان فارسی لکھی گئی’’دلیل النجات‘‘ کو کافی شہرت حاصل ہوئی تھی جو اب ناپید ہے ۔آپ بہ حالت وجد شعر بھی کہتے تھے اور تخلص محققؔ فرماتے۔ (واضح باد کہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں محقق اس ہستی کو کہتے ہیں جسے علم معرفت الٰہی علی وجہ التحقیق حاصل ہو)۔
حضرت محققؔ قدس سرہ العزیز کو تین صاحبزادے القادری باغ) کے بھانجے، جانشین و سجادہ حضرت سید عبدالرزاق حسینی قادری چشتی قدس سرہ العزیز کے عقد میں دیا جو حضرت الحاج مولانا سید شاہ ندیم اللہ حسینیؒ المعروف بہ سید فرید بادشاہ قادری قدس سرہ العزیز کے نانا ہوتے ہیں۔ یہ آفتاب معرفت بروز اربعین شہید کربلا 1305ھ بعمر 66 سال رفیق اعلیٰ سے جاملا۔ آپ کی تدفین اپنی مختص کردہ آخری آرام گاہ میں ہوئی آج یہی خطہ ارضی درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒمحققؔ (امام پورہ شریف ) سے مشہور ہے۔ ہر سال 20 صفر المظفر کو آپ کا عرس شریف حسب روایات خاندانی زیر نگرانی ابو المحامد حضرت شاہ سید عبدالرزاق حسینی القادری الملتانی خلیفہ و جانشین اول حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی قدس سرہ العزیز بن حضرت ابو القاسم شاہ سید عبدالوہاب حسینی القادری الملتانیؒ قدس سرہ العزیز سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ محققؔ امام پورہ شریف انتہائی ادب و احترام اور بڑی سادگی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ حضرت شاہ سید عبدالرحیم حسینی القادری الملتانی خادمؔؒ نے حضرت محققؔ کے سال ترحیل (20/صفر 1305ھ) کو بیان کرتے ہوئے حسب ذیل اشعار رقم فرمائے ہیں
سید پیر پیر معرفت راز داں و راز دار و رہنمائے
از رموز و راز حق معمور بود عقدہ کشائے
بود بستم از صفر از حکم رب جاں بحق تسلیم کرد
گفت سوزد ز شد نہاں مہر حقیقت ہائے ہائے
1305ھ
سال نقل حضرت محققؔ 1305ھ کو حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانیؒ المعروف بہ عارف پاشاہ (سابق سجادہ نشین درگاہ امام پورہ شریف) نے ’’پیر قطب المشایخ‘‘ سے استخراج فرمایا ہے ۔
از:۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)