تحریرمحمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے دماغ کے سرور، دل کے نور اور ان کا اسوہ صراط مستقیم پر باقی رکھنے کے لیے سرمایۂ حیات ہے ، امت محمدیہ کی اہمیت وعظمت ان کے صدقہ کے طفیل ہے، وہ ہماری محبتوں کے مرکز ہیں اور اس محبت کے بغیر ہماری زندگی کی کوئی معنویت نہیں ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی جائے، حیات مبارکہ کا مطالعہ کیاجائے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے، اسی میں ہماری کامیابی اور عز وشرف کا راز پوشیدہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں مصنفین نے سیرت پاک پر کتابیں لکھی ہیں، اور حیات طیبہ کی تطبیق آج کے دور میں کرنے کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ موجودہ حالات میں سیرت کے اس واقعہ سے کیا روشنی ملتی ہے ۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم- روشنی اور امن کے سفیر بھی اسی نقطۂ نظر سے وجود میں آئی ہے ، جو ڈاکٹر حسین غباش کی عربی تصنیف ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم قراء ۃ حدیثتہ فی سیرۃ النور والسلام کا ترجمہ ہے ، اور مترجم جناب محمد نیاز احمد صاحب ہیں، جنہوں نے اس کتاب میں اپنی شخصیت کا اتہ پتہ نہیں دیا ہے ، ایسی تواضع اور کسر نفسی کی مثال علمی اور تصنیفی دنیا میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے، البتہ ڈاکٹر حسین غباش کی شخصیت سے انہوں نے ہمیں متعارف کرایا ہے، لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر غباش کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے ، وہ عالم عرب کے ایک معروف قلم کار ، محقق اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، پولیٹیکل سائنس میں پی اچ ڈی ہیں، اور عالمی ادارہ یونیسکو میں متحدہ عرب امارات کے مستقل سفیر رہ چکے ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر ان کا تعارف یہ ہے کہ وہ مؤمن ، مخلص اور سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ہیں اور شاذ لی سلسلہ تصوف سے وابستہ ہیں۔‘‘
یہ کتاب سیرت نبوی پر سوانحی انداز کی کوئی چیز نہیں ہے ، بلکہ دور جدید کے اعتبارسے واقعات کا ذکر کرکے اس سے نتائج اخذ کئے گئے ہیں، او ر عصر حاضر میں اس کی تطبیق کے پہلوؤں کو سامنے لایا گیا ہے، مترجم جناب محمد نیاز احمد صاحب لکھتے ہیں۔’’اس کتاب میں واقعہ نگاری کے بجائے ایک ایسا طرز وآہنگ ہے جو سیرت کے عملی تطبیق کے پہلوؤں پر زور دیتا ہے اور قاری کو دعوت فکر وعمل دیتا ہے ‘‘، کتاب کو باب کے بجائے نو فصول پر تقسیم کیا گیا ہے ، اور ہر فصل کے ذیل میں سیرت پاک کے کئی کئی واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
جہاں تک ترجمہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں مترجم کا کہنا ہے کہ ’’میں نے ترجمہ میں اصل متن ، صحت معانی اور سیاق وسباق کا خیال رکھنے کی حسب توفیق الٰہی حتی المقدور کوشش کی ہے‘‘ اس دعویٰ کی جانچ کے لیے اصل عربی کتاب کا ہونا ضروری ہے ، جو تبصرہ لکھتے وقت میرے سامنے میں نہیں ہے۔
اس کتاب کا خوبصورت سر ورق فارس غصوب نے بنایا ہے، تین سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت دو سو ساٹھ روپے درج ہے، ناشر ایفرح گود ڈیڈیس ٹرسٹ حیدر آباد ہے، مجھے یہ کتاب اسی ٹرسٹ کے ذریعہ پہونچی ہے ۔ کتاب اس لائق ہے کہ اس کا پورے انہماک سے مطالعہ کیا جائے اور اسے پھیلا یا جائے، تاکہ امت مسلمہ کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اس کو دور کیا جا سکے۔