از:محمد ندیم الدین قاسمی
استاذ ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد۔
مفکرین و محققین نے امت کی زبوں حالی ، تنزل و انحطاط ،اسلام سے دوری ، اعمالِ صالحہ کے انجام دہی میں کسل مندی اور غفلت شعاری کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں؛ من جملہ ان کے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امت نے اپنا درخشاں و تاباں ماضی ، اکابرین و اسلاف کی پاکیزہ زندگی،ان کے علمی و عملی کارناموں کو فراموش کردیا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب جذبوں میں حرارت ایمانی ہے نہ حوصلوں میں پختگی،نہ روح میں تازگی ،نہ افکارمیں بلندی؛ بلکہ پست ہمتی،پژمردگی، مغربی تہذیب وکلچر انہیں ذریعۂ نجات، نظامِ اسلام انہیں فرسودہ اور روشن اسلامی تاریخ قصۂ پارینہ ” ان ھی الا اساطیر الاولین” نظر آتی ہے۔
سوانحِ اسلاف کا مطالعہ کیوں ضروری ؟
تجربہ شاہد ہے کہ بزرگان دین کی سوانح اور ان کی حکایات میں ایک خاص نور ہوتا ہے جو سننے والے پر کچھ درجہ وہی اثر رکھتا ہے جو صحبت سے حاصل ہوتا ہے،ایک مقولہ مشہور بھی ہے "عندذکر الصالحین تنزل الرحمۃ(تذکرۂ صالحیں حصولِ رحمت کا ذریعہ ہے)؛ اسی لئےحضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا :’’اَلْحِکَایَاتُ عَنِ الْعُلَمَاء وَمَحَاسِنُھُمْ أَحَبُّ إِلَيَّ لِأَنَّھَا آدابُ الْقَوْم‘‘’’علما کی حکایات اور ان کے محاسن کا تذکرہ میرے نزدیک بہت زیادہ محبوب ہے؛کیوں کہ وہ قوم کے آداب ہیں۔‘‘ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ خدامستوں،خاصانِ خدا،کی سوانح، اور ان کے افکار وخیالات،میں سکونِ دل کا خاصا بیش قیمت سرمایہ پنہاں ہوتا ہے،جن کی زندگی کے مطالعہ سے روح کو تازگی، فکر کو پاکیزگی،اور خیالات کو بلندی حاصل ہوتی ہے،جن کی زندگی کے مختلف روشن پہلوؤں سے پس آئندگان کو روشنی ملتی ہے،اس سے احسان شناسی کا جہاں فرض ادا ہوتا ہے تو وہیں نفع رسانی کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے، معاصی سے رکنے کی ہمت آتی ہے، نیز اسلاف کی زندگیوں کے مطالعہ سے زندگی میں تقوی و طہارت ،عبادت و ریاضت ،حق گوئی، جرأت ، خود داری،خودی و خود اعتمادی ، بادشاہوں ،حکمرانوں،اور ارباب اقتدار و سلطنت کے سامنے حق گوئی،احقاقِ حق اور ابطال باطل جیسے صفات پیداہوتی ہیں،نیز ان حضرات کے تذکروں سے گم کردہ راہ مسافر کو نشانِ منزل کا پتہ ملتا ہے۔
تو اسی لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آج امت ، بالخصوص نوجوانانِ ملت اسلامیہ کو اپنے اسلاف کی رفعتوں و بلندیوں اور ان کے علمی و فکری کمالات و عجائبات، نیز ان کی پاکیزہ و روح پرور زندگیوں سے متعارف کیا جائے؛ تاکہ امت نئی تہذیب کے دلدل و مادہ پرستانہ طرز زندگی سے اپنے آپ کو نکال کر، اپنے اسلاف کے نقش قدم پرچل سکیں۔ اس کے نتیجہ میں امت دارین کی فوز و فلاح اور اصلاح و بہتری سے بہرہ یاب ہوجائے۔
احب الصالحين و لست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
میں نیک اور صالح لوگوں سے محبت کرتا ہوں اگر چہ میں خود نیک و صالح نہیں ہوں ،بعید نہیں کہ اس محبت کی بناء پر اللہ تعالٰی مجھے بھی صلاح و تقوی سے نواز دے ۔
اور ایک دوسرے شاعر نے کہا :
تشبھوا ان لم تکونوا مثلھم
فان التشبہ بالکرام فلاح
اہل اللہ اور صلحاء کی مشابہت اختیار کرو ؛اگر چہ تم ان کے مشابہ نہیں ہو ،بیشک اہل اللہ اور نیک لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے میں بھی کامیابی و کامرانی اور فلاح و سعادت ہے ۔