از قلم: مجاہد عالم ندوی
استاد: ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور ، شاہ گنج پٹنہ
رابطہ نمبر: 8429816993
چودہ (14) نومبر کو یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے، جسے بال دیوس اور چلڈرنس ڈے بھی کہا جاتا ہے ، یوم اطفال عالمی سطح پر بھی منایا جاتا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو مختلف انداز سے یہ دن منایا جاتا ہے ۔
اس دن کے منانے کا مقصد بچوں کا حوصلہ بڑھانا ہے ، ان کی عزت افزائی اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے ۔
یوم اطفال منانے کا مقصد بچوں میں تعلیم ، صحت ، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور و آگہی کو اجاگر کرتا ہے ، تاکہ مستقبل میں یہ بچے ملک کے بہترین اور وفادار شہری ثابت ہو سکیں ۔
بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اگر انہیں مناسب تعلیم دی جائے اور ان کی صحیح تربیت کی جائے تو اس کے نتیجے میں ایک اچھا اور خوشگوار معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ بھی قدرت کا عجب کرشمہ ہے ، اس کی بھولی بھالی شخصیت میں کتنی کشش اور جاذبیت ہوتی ہے ، اس کی معصوم ادائیں ، اس کی شرارتیں ، اس کا کھیل کود ، غرض اس کی کون سی ادا ہے جو دل کو لبھاتی اور کیف و سرور سے نہ بھر دیتی ہو ۔
پھر ایک اور پہلو سے دیکھیے ہمیں نہیں معلوم کہ قدرت نے کس بچہ میں کتنی اور کس قسم کی صلاحیتیں رکھ دی ہیں ، اور آگے چل کر کیا خدمات یا کارنامے انجام دینے والا ہے ، ہو سکتا ہے کہ آج ان معصوموں میں کوئی کسان اور تاجر ہو ، کوئی انجنیئر اور صنعت کار ہو ، کوئی صحافی ہو ، کوئی طبیب و حکیم ہو ، کوئی مدرس ہو ، کوئی سائنس داں ، کوئی فلسفی ہو اور کوئی ماہر سیاست اور مدبر و منتظم ہو ، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ خاندان ، قبیلہ ، قوم ، ملک اور نوع انسانی ان میں سے کس کے ذریعہ کتنا بڑا فائدہ پہنچے گا ، اتنی بڑی صلاحیتیں جس بچہ کے اندر چھپی ہوئی ہیں وہ اپنی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ کمزور اور بےبس ہوتا ہے ۔
وہ اپنی نشو ونما اور پرورش کے لیے جتنی توجہ ، شفقت اور محبت کا طالب ہے ، کسی بھی خاندان کا بچہ اتنی توجہ اور محبت نہیں چاہتا ، ذرا سی بے احتیاطی سے اس کی زندگی ہی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ، اس کی ذہنی و فکری اور اخلاقی تربیت تو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے ، اس معاملے میں غلطی و کوتاہی اسے بالکل غلط رخ پر لے جا سکتی ہے ، اور اس کا وجود پورے سماج کے لیے عذاب بن سکتا ہے ، اگر صحیح نہج پر اس کی تربیت ہو سکے تو وہ سماج کو امن و چین اور سکون سے بھر سکتا ہے ۔
تربیت مستقل ایک فن ہے ، اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ تیار کردہ سانچے میں کسی کا ذہن و دماغ ڈھل جائے اور خاص طور پر اس کی اپنی اولاد کا اور خود اس کے زیر پرورش بچوں کا ، تو یقینی طور پر اس کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ ان کے ایام طفولیت کو زیادہ اہمیت دے ۔
بچوں کے جسم و جان اور ان کی طبیعت و مزاج کو گندھی ہوئی مٹی سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ کمہار اچھی طرح گندھی ہوئی مٹی کو جس طرح کے ظروف کی شکل دینا چاہتا ہے ، آسانی سے مطلوبہ شکل و صورت دے دیتا ہے ۔
بچوں کا اچھا یا برا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت صحیح طرح سے ہوئی ہے یا غلط انداز سے ۔
صرف رسمی طور پر ایک دن یوم اطفال منا کر اس عظیم ذمہ داری اور فرض کو کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا ہے ، اس کے لیے ہر دن کے چوبیس گھنٹے صرف کرنا پڑے گا ، یوم اطفال کا پیغام یہ ہے کہ ہم عہد کریں کہ ہم اپنے بچے کی ذہنی و فکری تربیت کریں گے ، ان کے لیے مناسب تعلیم کا نظم کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ جسمانی اور روحانی بالیدگی کی بھی فکر کریں گے ۔