کیا ہم خدا کے حضورجوابدہ نہیں ہوں گے؟

ازقلم: کامران غنی صباؔ
شعبئہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور

چار روز قبل اسکول کی طرف سے مجھے ایسے بچوں کو نشان زد کرنے کی ذمہ داری دی گئی جن کی عمر اسکول میں داخلے کے قابل ہو چکی ہے لیکن ان کے والدین انہیں اسکول نہیں بھیجتے۔ اسکول سے متصل علاقوں میں کئی ایسے بچے ملے جو اپنے ناخواندہ والدین یا سرپرست کی عدم توجہی کی وجہ سے اسکول نہیں بھیجے جاتے اور ان کا دن بھر کھیت کھلیان اور کھیل کود میں ختم ہوتا ہے۔ مختلف گھروں کا سروے کرنے کے دوران مجھے ایک ایسا بچہ بھی ملا جس کی داستان رقم کرتے ہوئے میری انگلیاں کانپ رہی ہیں۔ وہ بچہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر کے باہر خود میں ہی کھیل رہا تھا۔ میں نے اس سے اس کا نام پوچھا اور اسکول نہیں جانے کی وجہ دریافت کی۔ بچے نے اپنا نام بتایا لیکن دوسرے سوال کے جواب میں وہ خاموش رہ گیا۔ میں مزید اس سے کچھ سوال کرتا اس سے پہلے گھر کے اندر سے ایک بوڑھی عورت نمودار ہوئی، بوڑھی عورت دروازے پر آتے ہی عجیب سے بے زار لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔ "ماسٹر صاحب! ای لڑکا اسکول نہیں جاتا ہے اور نہ جائے گا، دوسرے گھر کے لڑکا لوگ کو لے جائیے اپنے اسکول”
میں نے قطع کلام کرتے ہوئے بوڑھی عورت کو سلام کیا اور بچے کے اسکول نہیں جانے کی وجہ دریافت کی۔ وہ عورت جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنے لہجے سے ایک بدتمیز اور بدزبان عورت کے روپ میں نظر آ رہی تھی اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔
"ماسٹر جی! ای میرا پوتا ہے۔ اس کی ماں مر گئی ہے۔ باپ دوسری شادی کیے ہوا ہے۔ او کبھی کام کرتا ہے کبھی چھوڑ دیتا ہے۔ او نہیں چاہتا ہے کہ اس کا بال بچہ پڑھے لکھے، زبردستی ای لڑکا کو بھی بھیک مانگے کو بھیج دیتا ہے اور نہیں جانے پر مارتا پیٹتا ہے۔ ای میرا پوتا ہے۔ باپ کے ڈر سے جس کے تس کے دوارے پر پڑا رہتا ہے۔۔۔ رہے دیجے ماسٹر جی، کسی اور کے گھر چلے جائیے۔۔۔ ای اسکول جائے گا بھی تو اس کا خرچا پانی کون اٹھائے گا؟ کتاب کاپی، کپڑا لتا کہاں سے آئے گا؟”
وہ عورت جو ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے ایک بدتہذیب اور بدزبان عورت نظر آ رہی تھی اب مجھے اس عورت پر افسوس آ رہا تھا۔ میں نے اپنے طور پر اس عورت کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ بچے کو اسکول بھیجے ان شاء اللہ آگے کا راستہ بھی نکل آئے گا۔
خدا کا شکر ہے کہ وہ بچہ اور اس کی ایک بہن (جو اس دن نظر نہیں آئی تھی) تین روز سے اسکول آ رہے ہیں۔ مجھے اس بات کی شرمندگی ہے کہ میں ان بچوں کی کاپی قلم کا انتظام نہیں کر سکا لیکن اس بات کی خوشی بھی ہے کہ مجھ سے پہلے ہمارے اسکول کے ہی ان بچوں نے جو اُس روز سروے میں میرے ساتھ تھے، اپنے پاکٹ خرچ سے ان بچوں کے کاپی قلم پسنل وغیرہ کا انتظام کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسی ایک بچے کی داستان نہیں ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار بچے موجود ہیں جو یتیمی، معاشی تنگی یا کسی دوسری وجہ سے زیور علم سے آراستہ نہیں ہو پاتے اور کم عمری میں ہی چھوٹے موٹے کاموں میں لگا دیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو اپنے اپارٹمنٹ اور کالونی سے باہر نکل کر کسی سرکاری اسکول چلے جائیں اور صرف چند بچوں سے ہی ان کے گھریلو اور سماجی پس منظر کا جائزہ لیں۔ آپ یقین کریں کہ آپ بے چین ہو اٹھیں گے۔ ان بچوں کو دیکھنے اور ان کے حالات جاننے کے بعد آپ کے حلق کے نیچے کھانا نہیں جائے گا لیکن افسوس کہ ہم اپنی دنیا میں اتنا مست ہیں کہ ہمیں اپنی ہی قوم و ملت کے ان نونہالوں کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے۔
وہ قوم جسے یہ تعلیم دی گئی کہ اس کا پڑوسی بھوکا نہیں سونا چاہیے ورنہ اس پر جنت حرام ہو جائے گی، وہی قوم آج نہ جانے کتنے پیسے بیجا عیش و عشرت اور تقریبات کے نام پر عیاشیوں میں اڑا دیتی ہے اور اس کے پڑوس کے بچے بھوکے پیاسے، تعلیم و تربیت سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مقدس کتابوں کی دلنشیں عبارتیں اور منبر و محراب سے اٹھنے والی صدائیں فضا میں بازگشت ضرور کرتی ہیں لیکن خوبصورت اور مقدس الفاظ اپنی تاثیر کھو چکے ہیں۔۔۔ انسانیت کراہ رہی ہے۔۔۔ الفاظ زندہ ہیں۔۔۔۔

(نوٹ: یہ تحریر دو سال قبل کی ہے جب میں مڈل اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہا تھا)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے