بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی حالت

ازقلم: محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005jo


06/دسمبر/1992 کو جو ناقابل بیان اور دل خراش واقعہ ہمارے ملک ہندوستان میں پیش آیا تھا، اس واقعہ کی ٹیسیں اور خراشیں آج تک ہندوستانی معاشرے کو دہلا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مذکورہ دن و تاریخ جیسے ہی آتا ہے، اپنے ساتھ اس دن کی ہولناکی، وحشت و بربریت کی المناک داستان نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں اور ذہن و دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مذہب و عقیدت کا لبادہ اوڑھے شرپسندوں اور زعفرانی نظریات کے حامل ٹولہ کی طرف سے اس دن کیسے جمہوری اقدار و نظام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی تھیں، اور پوری پلانننگ کے تحت دن کے اجالے میں قدیم و تاریخی بابری مسجد کو کیسے مسمار و شہید کرکے اپنے مذہب کی دوسرے مذہب پر بالا دستی قائم کرنے کی ناپاک کوششیں اور کس طرح اپنے تخریبی عزائم کو بروئےکار لانے کی فضول کوششیں کی گئی تھیں؟ یہ سب باتیں ورق در ورق تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔ اور یہ دن آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کی افسردگی اور ان کی ذہنی پسماندگی میں اضافہ کا باعث بنے ان کو اندر ہی اندر سے کھوکلا کئے ہوئے ہے، کیونکہ مسلمان اس اندوہناک واقعہ کے پیش آنے کے بعد ایک طرح سے ظاہری طور پر خود کو ٹوٹا ہوا اور اندرونی لحاظ سے غمزدہ بنا گھوم رہا ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ مسجد بابری کی یہ شہادت ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی و سیاسی طور پر مفلوج، ان کے عقائد و نظریات کو کمزور، ان کو وطنی اعتبار سے بےحیثیت اور ان کی اجتماعیت سے کھلواڑ کرنے والی ثابت ہوئی ہے۔
بابری مسجد: 1528 میں جس بلند ٹیلے پر تعمیر کی گئی تھی تھی؛ اس ٹیلے کے بارے میں ہمارے برادران وطن کا یہ کہنا رہا ہے کہ یہ جگہ دراصل رام کی جائے پیدائش (رام جنم بھومی) ہے، اس اعتبار سے یہاں مسجد نہیں بلکہ اصلا مندر ہونا چاہئے! چنانچہ مندر مسجد کے اس تنازع نے جب طول پکڑا تو تقریبا ڈھائی سو سال کے بعد (1885) میں مہنت رگھوبرداس کے ذریعے یہ معاملہ پہلی مرتبہ فیض آباد عدالت میں درج کرایا جاتا ہے، جس میں یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اجودھیا میں واقع اس بلند ٹیلے پر جو بابری مسجد تعمیر ہے؛ اسی کے متصل رام مندر تعمیر کرانے کی بھی اجازت دی جائے۔ اس وقت مندر مسجد کا یہ تنازع پیش آتا ہے اور بروقت عدالت کی طرف سے کوئی مثبت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے پیچ در پیچ الجھتا اور مزید پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر تو ہوا یہ کہ برادران وطن کی طرف سے کبھی تو اس مقام پر بھگوان نام کی مورتیاں نصب کر دی جاتی ہیں تو کبھی موقع پاکر ان کی پوجا شروع کر دی جاتی ہے، ادھر مسلمانوں کے طبقہ نے وہاں نماز ادا کرنا ترک کر دیا۔
مقدمہ کے تصفیہ کےلئے تاریخیں ملتی رہیں اور دونوں فریق اپنے اپنے دعوے پر مصر اور متقاضی رہے؛ چونکہ معاملہ اب عدالت پہنچ چکا تھا، اور عدالت کے تئیں عوام کا یہ تصور قائم ہے کہ وہ انصاف کا مندر ہوا کرتی ہے، جہاں عقیدت و آستھا کی بنیاد پر نہیں، بلکہ شہادت و ثبوت کی بنیاد پر مقدمے فیصل ہوا کرتے ہیں، جج کی عینک جس بات کو ثبوت و شواہد کی بنیاد پر مشاہدہ کرتی ہے؛ اسے درج کرتی ہے اور اس کا قلم انہیں باتوں کو صحیح مان کر فیصلہ صادر کرتا ہے، جن کو پختہ حوالوں کے ساتھ کمرہ عدالت میں فریقین پیش کرتے ہیں۔ امیر و غریب، سیاہ و سفید، آقا و غلام اور مذہبی تفریق کو ان کے نزدیک گناہ اور جرم عظیم تصور کیا جاتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ مندر مسجد کا یہ تنازع بنام ہندو مسلم تھا؛ مگر عبادت اور پوجا تو دنیا کے اسی ایک مالک کی کیجاتی ہے، جس کی طرف سب کو پلٹ کر جانا ہے، اور اپنے کئے ہوئے کو بھگتنا ہے۔ پھر کیوں 9/نومبر/2019 کو ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پانچ ججوں نے اس مسئلے میں تفریق برتی اور یکطرفہ فیصلہ سنا کر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کا نہ صرف استحصال کیا بلکہ اس طرح یکطرفہ فیصلہ سنا کر انہیں مزید پست و کمزور کرنا کا عندیہ دیا۔ کیس ہینڈل کرنے والے ججز کو کیا اس بات کا احساس و ادراک نہیں تھا کہ بابری مسجد کی شہادت سے دو سال پہلے جب لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ مندر (گجرات) سے لےکر ایودھیا (اترپردیش) تک جو رام مندر کے نام پر رتھ یاترا نکالی تھی، اس کے نتیجے میں جو ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، ان میں زیادہ تر جان و مال کا نقصان مسلمانوں ہی کو پہنچا تھا، کیا اسی طرح سے یکطرفہ فیصلہ سنا کر ایک بار پھر سے ملک کو فسادات کی آگ میں جھونکنا تھا اور ہندو مسلم کی تفریق کو بڑھاوا دینا تھا؟ یا اس ملک کی زمین پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا مقصود تھا؟ جس کے مشاہدہ میں روز افزوں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اسی لئے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہمارے محترم اور قابل تعظیم ججز صاحبان کے سامنے ایسی کیا مجبوری تھی، کہ جب سارے ثبوت بابری مسجد کے حق میں موجود تھے؛ جن کا انہوں نے اپنے آخری فیصلہ میں تحریری طور پر اقرار بھی کیا ہے تو پھر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ سنایا؟ آیا انہیں اپنی جان کا ڈر ستا رہا تھا یا حکومت کی کوئی وارننگ اور پیش کش ان کے مد نظر تھی؟ جہاں آکر انہوں نے اپنے گھٹنے ٹیک دئے قدیم بابری مسجد کی جگہ مندر کے حوالے کرکے سنی وقف بورڈ کو اس کا متبادل فراہم کرا کر دوسری جگہ مسجد تعمیر کرانے کی بات کہی، اور اس طرح ہماری جو تاریخی بابری مسجد 06/دسمبر/1992 کو اپنے بوسیدہ اور ماتم کناں در و دیوار کے ساتھ منہدم و شہید ہوئی تھی، وہ 09/نومبر/2019 کو سیاسی جماعتوں کی ملی بھگت اور عدالت کی غیر جانب دار کارروائی کی بدولت مکمل طور پر ہمیشہ ہمیش کےلئے مسلمانوں سے چھین لی جاتی ہے اور اس کے حق ملکیت سے مسلمانوں کو محروم کر دیا جاتا ہے۔
لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے اور ہمارا مذہب اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جس جگہ پر ایک مرتبہ مسجد تعمیر ہو جائے؛ اور اس جگہ سے کسی کا کوئی حق وابستہ نہ ہو تو وہ جگہ فرش تا عرش قیامت تک مسجد ہی کی ہوتی ہے، اب اس پر سوائے مسجد کے کوئی بھی تعمیر جدید قبول و منظور نہیں ہوتی؛ خواہ وہ تعمیر بزور سیاست ہو یا کسی فرد واحد کی زور زبردستی کے طفیل۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آج (06/دسمبر) کے دن شہید بابری مسجد کی تعمیر اور اس کی بازیابی کے حق کی دعا اور اپنے اندر جذبہ و حوصلہ پیدا کریں، ساتھ ہی اس ملک کی صدیوں پرانی روایات، گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی آہنگی و روا داری کے استحکام اور بھائی چارے کی فضا قائم رہنے کی دعا کریں اور بارگاہ الہی میں اس بات کا اقرار و اعتراف کریں کہ: اے خدا! ہم نے اپنی طرف سے جو کوشش بھی ہو سکتی تھی، وہ کی؛ شاید تجھے وہاں اپنا گھر منظور نہ تھا، اس لئے تو ہماری کمی و کوتاہی کو معاف فرما اور اپنے گھر کی توہین کرنے والے بت پرست ٹولوں کو ہدایت نصیب فرما، کہ ہم تو تیرے اس گھر کو بچا کر اپنی جبینوں سے آباد نہ کر سکے، مگر اس کی دوبارہ تعمیر و ترقی کےلئے ہم تجھ سے عہد کرتے ہیں اور جب تک حالات سازگار و مددگار نہیں ہوتے بلاشبہ ہم اس کےلئے جدو جہد کرتے رہیں گے۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے