لوگوں کی پسندیدہ شخصیت کیسے بنیں؟

از قلم: رفیقہ پلّو کر
علی باغ، رائے گڑھ مہاراشٹر

ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے اسے چاہا جائے،لوگ اس سے محبّت کریں،اُس کے ساتھ وقت گزارنا چاہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کسی تقریب میں کوئی شخص آتا ہے اور بس چھا جاتا ہے۔لوگ اُس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔اُس کے اندازِ گفتگو،خوش لباسی،رکھ رکھاؤ،خوش خلقی اور لوگوں سے ملنساری اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ وہ بہت خوب صورت ہو، یا یہ کہ امیر ہو۔
1) اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کےگرویدہ ہوں تو لوگوں کو critisize کرنا بند کریں۔یہ ایسا ہے وہ ویسا ہے۔یہ اُونچا ہے وہ پستہ قد ہے۔یہ کالا ہے وہ گورا ہے۔اس نے ایسا کیا،اُس نے ویسا کیا۔۔بس لوگوں میں جو خوبیاں آپ کو نظر آ رہی ہو اُس پر توجّہ مرکوز رکھیں۔لوگ اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں۔اگر آپ کسی میں کوئی خاص بات یا کوئی خوبی دیکھتے ہیں تو تعریف ضرور کریں۔جھوٹی تعریف بالکل بھی مت کریں۔ تنقید کرنی بھی ہے تو تنقید برائے اصلاح ہو۔تنقید برائے تنقید نا ہو۔
ایک شخص اپنے ایک دوست سے ملنے گیا جو پیشے کے اعتبار سے ایک سايکالوجسٹ تھا۔ اُس نے اپنے ڈاکٹر دوست کو بتایا کہ میں زندگی میں اپنی بیوی کی وجہ سے بڑا پریشان ہوں۔اُسے پہننے،اوڑھنے،کھانے پینے،کہیں جانے آنے کا سلیقہ نہیں ہے۔بات بات پر سبھوں سے جھگڑا کرتی ہے۔گھر کا سکون غائب کیا ہوا ہے۔ میں اُسے، اُس سے جھگڑا کئے بغیر بدلنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر دوست یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ ایک عورت میں اتنی ساری خرابیاں تھیں۔اُس نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ میں تمہیں ایک دن کا وقت دیتا ہوں۔ایک کاغذ پر اپنی بیوی کی کوئی دس خوبیاں جو تمھیں نظر آئے لکھ دینا اوروہ کاغذ لے کر دوبارہ آنا۔ دوست نے تاسف سے سر ہلایا کہ اس کی دس خوبیاں میں کہاں سے لکھ لاؤں؟ بہت مشکل ہے۔
خیر وہ گھر چلا آیا اور بیوی پر نظر رکھنی شروع کیں۔ جب ایمانداری سے وہ اپنی بیوی کی اچّھی باتیں لکھنے بیٹھ گیااُسے حیرت ہوئی کہ ابھی مغرب ہی ہوئی تھی، صبح ہونا باقی تھی کہ اُس کاغذ پر وہ اپنی بیوی کی پندرہ خوبیاں تحریر کر چُکا تھا۔
دوسرے روز وہ کاغذ لے کر اپنے ڈاکٹر دوست کے پاس گیا۔ دوست نے مشورہ دیا کہ اب یہ کاغذ اپنے پاس ہی رکھو اور اپنی بیوی کی اِن پندرہ خوبیوں پر صرف دس دن نظر رکھنا بعد میں مجھے ملنے کے لئے آنا۔
اب اس پریشان حال شخص نے ایسا ہی کرنا شروع کیا۔ ابھی چار دن ہی گذرے تھے کہ بیوی میں بدلاؤ آنا شروع ہو گیا۔ اُسے خوشی ہوئی اور ڈاکٹر دوست کو فوراً صورتِ حال کے بارے میں مطلع کیا۔پہلے جب وہ خرابیوں،خامیوں پر نظر رکھتا تھا تو اسی طرح اپنی بیوی سے بے زاری اور بے نیازی سے پیش آتا تھا۔اب جب خوبیوں پر دھیان دیا تو بیوی بھی اچّھی لگنے لگی۔نتیجتاً اس کا بیوی سے رویّہ بہتر ہوا تو بیوی بھی ٹھیک سے رہنے لگی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی اچھائیوں پر نظر رکھیں۔
2) ہر کسی کے سامنے رونا بند کریں:۔دُنیا ہنسنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔روتے ہوؤں کا ساتھ کوئی نہیں دیتا۔ لوگوں سے ہمدردی کی توقع نا رکھیں۔اپنے آپ پر ترس کھانا بند کریں۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ محفِل میں خوش مزاج لوگوں کو کس طرح توجہ حاصل ہوتی ہے۔یہ جان محفِل ہوتے ہیں۔خود کی تکلیفیں،دکھ درد بازو میں رکھ کر دوسروں سے ہنس بول لیا کریں۔آپ کو بہتر محسوس ہوگا اور دوسروں کے لئے آپ قابلِ قدر لوگوں میں شمار ہوں گے۔
3) شکایت نا کریں: جو ملا وہ بہتر ،جو نا ملا اُس میں اپنی بہتری۔۔۔اپنی مدد آپ کے اُصول پر زندگی گزاریں۔لوگوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔
4) خندہ پیشانی سے پیش آئیں:- اوروں کے خلاف دِل میں باتیں جمع نا کریں۔ گلے شکوے بالائے طاق رکھ کرخود آگے بڑھ کر آواز دیا کریں۔ اس طرح کئ رنجشیں خود بہ خود دم توڑ دیتی ہیں۔لوگوں کو معاف کرتے جائیں چاہیں وہ آپ سے معذرت طلب کریں یا نہ کریں۔
5) مدد کا ہاتھ بڑھائیں: انسان اُنھیں کبھی نہیں بھولتا جب اُسے کسی کی مدد کی ضرورت تھی اور جن لوگوں نے اُس کی مدد نہیں کیں۔سچّا دوست ،سچّا ہمدرد وہی ہوتا ہے جو ضرورت کے وقت دستِ تعاون دراز کرتا ہے۔ایسے لوگ محبوب نظر بن جاتے ہیں۔ بہ وقتِ ضرورت لوگوں کو صحیح رائے دیں ۔عمدہ مشورہ دینا بھی صدقہ ہی ہے۔ صحیح راہ نمائی کریں۔
مندرجہ بالا نکات پر عمل پیرا ہو کر اپنی شخصیت کو اوروں میں ممتاز کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے